Tafseer-e-Saadi - Aal-i-Imraan : 138
هٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ مَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ
ھٰذَا : یہ بَيَانٌ : بیان لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَھُدًى : اور ہدایت وَّمَوْعِظَةٌ : اور نصیحت لِّلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
یہ (قرآن) لوگوں کے لیے بیان صریح اور اہل تقوی کے لئے ہدایت اور نصیحت ہے
آیت 138 یہ آیات کریمہ اور ان کے بعد آنے والی آیات ” احد “ کے واقعات کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جن میں اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو تسلی دیتے ہوئے آگاہ فرماتا ہے کہ ان سے پہلے گزری ہوئی قوموں اور امتوں کو بھی امتحان میں ڈالا گیا اور اہل ایمان کفار کے ساتھ جنگ کی آزمائش میں مبتلا کئے گئے اور وہ بھی کبھی فتح سے نوازے گئے اور کبھی انہیں زک اٹھاناپ ڑی۔ مگر اس تمام کشمکش کا انجام اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کے حق میں رکھا اور اپنے مومن بندوں کو فتح و نصرت سے نوازا۔ آخر کار جھٹلانے والوں پر غلبہ حاصل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور ان کے پیروکاروں کو اپنی نصرت عطا کر کے جھٹلانے والوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ (فسیروا فی الارض) ” زمین میں چلو پھرو “ یعنی اپنے جسم اور قلوب کے ساتھ (زمین میں چلو پھرو) (فانظروا کیف کان عاقبۃ المکذبین) تم تکذیب کرنے والوں کو مختلف قسم کے دنیاوی عذاب اور عقوبتوں میں مبتلا پاؤ گے۔ ان کے شہر تباہ و برباد ہوگئے اور ان کا خسارہ سب پر عیاں ہوگیا۔ ان کی شان و شوکت اور اقتدار قصہ پارینہ بن گای، ان کا تکبر اور فخر ختم ہوگیا۔ کیا یہ سب اس امر کی سب سے بڑی دلیل اور سب سے بڑا شاہد نہیں کہ جو کچھ انبیاء کرام لے مبعوث ہوئے وہ صداقت پر مبنی ہے ؟ بندوں کو آزمائش میں مبتلا کرنے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ سچوں اور جھوٹوں میں امتیاز ہوجائے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (ھذا بیان للناس) یعنی یہ واضح دلیل ہے جو لوگوں کے سامنے باطل میں سے حق کو واضح کردیتی ہے۔ اہل شقاوت میں سے اہل سعادت کو ممتاز کردیتی ہے اور یہ اس عذاب کی طرف بھی اشارہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے جھٹلانے والوں کو مبتلا کیا۔ (وھدی وموعظۃ للمتقین) اور متقین کے لئے ہدایت اور نصیحت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی آیات سے صرف یہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ آیات انہیں رشد و ہدایت کی راہ دکھاتی اور انہیں گمراہی کے راستے سے روکتی ہیں۔ رہے باقی لوگ تو یہ ان کے سامنے کھول کر بیان کردینا ہے جس سے ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت قائم ہوجاتی ہے تاکہ جو ہلاک ہو وہ دلیل کو جان کر ہلاک ہو۔ نیز اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ (ھذا بیان للناس) میں قرآن مجید اور ذکر حکیم کی طرف اشارہ ہو اور یہ کہ یہ عمومی طور پر تمام لوگوں کے لئے بیان ہے اور اہل تقویٰ کے لئے خاص طور پر ہدایت اور نصیحت ہے۔ دونوں معنی صحیح ہیں۔
Top