Tafseer-e-Saadi - Aal-i-Imraan : 160
اِنْ یَّنْصُرْكُمُ اللّٰهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ١ۚ وَ اِنْ یَّخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَنْصُرُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِهٖ١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ
اِنْ : اگر يَّنْصُرْكُمُ : وہ مدد کرے تمہاری اللّٰهُ : اللہ فَلَا غَالِبَ : تو نہیں غالب آنے والا لَكُمْ : تم پر وَاِنْ : اور اگر يَّخْذُلْكُمْ : وہ تمہیں چھوڑ دے فَمَنْ : تو کون ذَا : وہ الَّذِيْ : جو کہ يَنْصُرُكُمْ : وہ تمہاری مدد کرے مِّنْۢ بَعْدِھٖ : اس کے بعد وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے کہ بھروسہ کریں الْمُؤْمِنُوْنَ : ایمان والے
اگر خدا تمہارا مددگار ہے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو پھر کون ہے کہ تمہاری مدد کرے ؟ اور مومنوں کو چاہیے کہ خدا ہی پر بھروسا رکھیں
آیت 160 اگر اللہ تعالیٰ اپنی فتح و نصرت اور اعانت کے ذریعے سے تمہاری مدد کرے (فلا غالب لکم) تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا، خواہ دنیا کے تمام شوگوں سے جمع ہو کر لوگ تمہارے خلاف کیوں نہ آجائیں اور خواہ ان کے پاس کتنی ہی زیادہ تعداد اور کتنا ہی سرو سامان کیوں نہ ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ تمام بندے اس کے سامنے مغلوب و مقہور ہیں۔ ان کی پیشانی اس کے قبضہ قدرت میں ہے، پس کوئی جاندار اس کی اجازت کے بغیر حرکت کرسکتا ہے نہ اس کی اجازت کے بغیر سکون اختیار کرسکتا ہے۔ (وان یخذلکم) ” اور اگر وہ تمہیں مدد نہ کرے “ یعنی تمہیں تمہارے نفس کے حوالے کر دے (فمن ذا الذی ینصرکم من بعدہ) ” پس کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرے ؟ “ اس لئے اگر تمام مخلوق بھی تمہاری اعانت پر مجتمع ہوجائے تو پھر بھی تم مدد سے محروم ہوگئے۔ یہ آیت کریمہ اس حکم کو متضمن ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ سے فتح و نصرت طلب کی جائے، اسی پر بھروسہ کیا جائے اور اپنی طاقت وقدرت سے برأت کا اظہار کیا جائے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (علی اللہ فلیتوکل المومنون) معمول کو عامل سے قبل لانا حصر کا معنی دیتا ہے۔ یعنی تم صرف اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرو، کسی اور پر بھروسہ نہ کرو۔ کیونکہ یہ حقیقت معلوم ہے کہ وہ اکیلا مدد کرنے والا ہے۔ اس لئے اس پر اعتماد اور بھروسہ کرنا توحید ہے اور اس سے مقصود و مطلوب حاصل ہوتا ہے اور کسی دوسرے پر بھروسہ کرنا شرک ہے اور بھروسہ کرنے والے کو کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ وہ نقصان دہ ہے۔ اس آیت میں صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کا حکم ہے اور بندہ مومن کے ایمان کے مطابق ہی اس کا توکل ہوتا ہے۔
Top