Tafseer-e-Saadi - Aal-i-Imraan : 177
اِنَّ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الْكُفْرَ بِالْاِیْمَانِ لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰهَ شَیْئًا١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اشْتَرَوُا : انہوں نے مول لیا الْكُفْرَ : کفر بِالْاِيْمَانِ : ایمان کے بدلے لَنْ : ہرگز نہیں يَّضُرُّوا : بگاڑ سکتے اللّٰهَ : اللہ شَيْئًا : کچھ وَلَھُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
جن لوگوں نے ایمان کے بدلے کفر خریدا وہ خدا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور ان کو دکھ دینے والا عذاب ہوگا
آیت 177 رسول اللہ ﷺ لوگوں کی ہدایت کے بہت آرزو مند تھے اور ان کو ہدایت کی راہ پر لانے کے لئے جدوجہد کرتے تھے۔ جب وہ ہدایت قبول نہ کرتے تو آپ بہت آزردہ ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ولا یحزنک الذین یسارعون فی الکفر) یعنی ان کی کفر میں شدید رغبت اور چاہت کی وجہ سے آپ آزردہ خاطر نہ ہوں (انھم لن یضروا اللہ شیآء) ” وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے “ پس اللہ تعالیٰ اپنے دین کا حامی و ناصر، اپنے رسول ﷺ کی مدد کرنے والا اور ان کے بغیر اپنے حکم کو نافذ کرنے والا ہے۔ اس لئے آپ ان کی پروا نہ کریں۔ یہ محض اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہے ہیں، ایمان سے محروم ہو کر اس دنیا میں اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے سامنے حقیر ہونے، اس کی نظر سے گرنے اور اللہ تعالیٰ کے اس ارادے کی وجہ سے کہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو۔۔۔ ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا۔ ان کی جزایہ ہے کہ اس نے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا اور انہیں اس توفیق سے نہ نوازا جو اس نے نہایت عدل و حکمت کی بنا پر اپنے اولیاء اور ان بندوں کو عطا کی جن کے ساتھ وہ بھلائی چاہتا ہے۔۔۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ وہ راہ ہدایت کے ذریعے سے تزکیہ نفس نہیں چاہتے اور اپنے فاسد اخلاق واطوار اور برے مقاصد کی بنا پر رشد و ہدایت کو قبول نہیں کرتے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے ایمان کے مقابلے میں کفر کو چن لیا پھر اس کفر میں اس شخص کی مانند رغبت کرنے لگے جو کسی محبوب مال تجارت کو خریدنے کے لئے اپنا محبوب مال خرچ کرتا ہے۔ فرمایا : (لن یضروا اللہ شیئاً ) ” وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچاتے۔ “ بلکہ ان کے فعال کا نقصان خود ان کی ذات کو پہنچتا ہے۔ بنا بریں فرمایا : (ولھم عذاب الیم) ” اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے “ وہ اللہ تعالیٰ کو کیسے نقصان پہنچا سکتے ہیں، وہ ایمان سے دور بھاگتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر میں پوری طرح راغب رہے۔ اللہ ان سے بےنیاز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے لئے ان کفار کے سوا اپنے نیک اور پاک بندوں کو مقرر کر رکھا ہے اور اپنے دین کی مدد اور نصرت کے لئے اپنے پسندیدہ بندوں میں سے اصحاب عقل و بصیرت اور بڑے بڑے ذہین لوگوں کو تیار کر رکھا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (قل امنوا بہ اولا تومنوا ان الذین اوتوا العلم من قبلہ اذا یتلی علیھم یخرون للاذقان سجدا) (بنی اسرائیل : 108/18) ” کہہ دیجیے کہ تم اس قرآن پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جن کو اسسیپ ہلے علم دیا گیا جب یہ ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گرجاتے ہیں۔ “
Top