Tafseer-e-Saadi - Al-Ahzaab : 45
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ : بیشک ہم نے آپ کو بھیجا شَاهِدًا : گواہی دینے والا وَّمُبَشِّرًا : اور خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈر سنانے والا
اے پیغمبر ہم نے تم کو گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے
آیت 45 یہ صفات گرامی جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد مصطفیٰ ﷺ کو موصوف کیا ہے، آپ کی رسالت کا مقصود و مطلوب اور اس کی بنیاد ہیں، جن سے آپ کو مختص کیا گیا اور وہ پانچ چیزیں ہیں : (1) (شاھداً ) یعنی آپ کا اپنی امت کے اچھے اور برے اعمال پر گواہ ہونا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (لتکونوا شھدآء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیدا) (البقرہ : 173/2) ” تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنیں۔ “ اور فرمایا : (فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید وجئنا بک علی ھولآء شھیداً ) (النساء :31/3) ” پس کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ کو بلائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ کعے طور پر طلب کریں گے۔ “ (2، 3) (مبشراً و نذیراً ) یہ مبشر اور منذر کے ذکر کو، نیز جس چیز کی خوش خبری دی جائے اور جس سے ڈرایا جائے اور انذار وتبشیر والے اعمال کے ذکر کو مستلزم ہے۔ پس (المبشر) ” جس کو خوش خبری دی گئی ہو “ سے مراد اہل ایمان اور اہل تقویٰ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان اور عمل صالح کو جمع اور معاصی کو ترک کیا ہے۔ ان کے لئے دنیا ہی میں ہرق سم کے دینی اور دنیاوی ثواب کی بشارت ہے جو ایمان اور تقویٰ پر مترتب ہوتا ہے اور آخرت میں ان کے لئے ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ہیں۔ یہ سب کچھ اعمال کی تفاصیل تقویٰ کے خصائل اور ثواب کی اقسا مکہ ذکر کو مستلزم ہے۔ (المنذر) سے مراد مجرم، ظالم اور جاہل لوگ ہیں، جن کے لئے اس دنیا میں دینی اور دنیاوی عقوبات کے ذریعے سے ڈرانا ہے جو ظلم اور جہالت پر مترتب ہوتی ہیں اور آخرت میں ہمیشہ رہنے والا درد ناک عذاب ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ جو کتاب و سنت لائے ہیں یہ جملہ تفاصیل اسی پر مشتمل ہیں۔ (ر) (داعیا الی اللہ) یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس لئے مبعوث فرمایا تاکہ آپ مخلوق کو ان کے رب کی طرف دعوت دیں، ان میں اللہ تعالیٰ کے اکرام و تکریم کا شوق پیدا کریں اور ان کو اس کی عبادت کا حکم دیں جس کے لئے ان کو تخلیق کیا گیا ہے۔ یہ چیز ان امور پر استقامت کا تقاضا کرتی ہے جن کی دعوت دی گئی ہے اور یہ چیز ان کے اپنے رب کی، اس کی صفات مقدسہ کے ذریعے سے معرفت اور جو صفات اس کے جلال کے لائق نہیں ان صفات سے اس کی ذات مقدس کی تنزیہ جیسے امور کی تفاصیل کا تذکرہ ہے جن کی طرف انہیں دعوت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عبودیت کی مختلف انواع، قریب ترین راستے کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے، ہر حق دار کو اس کا حق عطا کرنے کا ذکر کیا ہے، نیز اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ دعوت الی اللہ اپنے نفس کی تعظیم کے لئے نہ ہو بلکہ خلاص اللہ تعالیٰ کے لئے ہو جیسا کہ اس مقام پر بہت سے نفوس کو کبھی کبھی یہ عارضہ لاحق ہوتا ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتا ہے۔ (5) (سراجاً منیراً ) روشن چراغ “ یہ لفظ دلالت کرتا ہے کہ تمام مخلوق بہت بڑی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی جہاں روشنی کی کوئی کرن نہ تھی جس سے راہنمائی حاصل کی جاسکتی، نہ کوئی علم تھا کہ اس جہالت میں کوئی دلیل مل سکتی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس نبی کریم ﷺ کو مبعوث فرمایا۔ آپ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے تاریکیوں کا پردہ چاک کردیا، آپ کے ذریعے سے جہالتوں کے اندھیروں میں علم کی روشنی پھیلائی اور آپ کے ذریعے سے گمراہوں کو سیدھا راستہ دکھایا۔ پس اہل استقامت کے لئے راستہ واضح ہوگیا اور وہ اس راہنما ﷺ کے پیچھے چل پڑے۔ انہوں نے اس کے ذریعے سے خیر و شر، اہل سعادت اور اہل شقاوت کو پہچان لیا۔ انہوں نے اپنے رب کی معرفت کے لئے اس سے روشنی حاصل کی اور انہوں نے اپنے رب کو اس کے اوصاف حمیدہ، افعال سدیدہ اور احکام رشیدہ کے ذریعے سے پہچان لیا۔ (وبشر المومنین بان لھم من اللہ فضلا کبیراً ) ” آپ مومنوں کو خوش خبری سنا دیجیے کہ ان کے لئے اللہ کے طرف سے بہت بڑا افضل ہے۔ “ اس جملے میں ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کو خوش خبری دی گئی ہے اور وہ اہل ایمان ہیں۔ جب کہیں ایمان کو مفرد طور پر ذکر کیا جائے تو اس میں عمل صالح داخل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان امور کا بھی ذکر کیا جن کی خوش خبری دی گئی ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا اور جلیل القدر فضل، جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا مثلاً اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت، ہدایت، قلوب، گناہوں کی بخشش، تکلیفوں کا دور ہونا، رزق کی کثرت اور ارزنی، خوش کن نعمتوں کا حصول، اپنے رب کی رضا اور اس کے ثواب کے حصول میں کامیابی اور اس کی ناراضی اور اس کے عذاب سے نجات۔ یہ وہ امور ہیں جن کے ذکر سے عمل کرنے والوں کو نشاط حاصل ہوتا ہے، جن سے وہ صراط مستقیم پر گامزن ہونے میں مدد لیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے۔ جیسا کہ یہ بھی اس کی حکمت ہے کہ وہ ترہیب کے مقام پر عقوبتوں کا ذکر کرتا ہے جو ان افعال پر مترتب ہوتی ہیں جن سے ڈرایا گیا ہے تاکہ یہ ترہیب ان امور سے باز رہنے میں مدد دے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے۔ لوگوں میں سے ایک گروہ، دعوت الٰی اللہ کا کام کرنے والے انبیاء ومرسلین اور ان کے متعبین کی راہ روکنے کے لئے ہر وقت مستعد رہتا ہے۔ یہ وہ منافق ہیں جو ایمان کا اظہار کرتے ہیں جب کہ باطن میں درحقیقت کافر اور فاجر ہوتے ہیں اور وہ کفار ہیں جو ظاہر اور باطن میں کافر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو ان کی اطاعت کرنے سے روکا ہے اور ان کے برے منصوبوں سے ہوشیار کیا ہے، چناچہ فرمایا : (ولا تطع الکفرین والمنفقین) ” اور کافروں اور منافوں کا کہنا نہ ماننا “ یعنی کسی بھی ایسے معاملے میں ان کی بات نہ مانیں جو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکے۔ یہ بات ان کو اذیت دینے کا تقاضا نہیں کرتی بلکہ حکم یہ ہے کہ آپ ان کی اطاعت نہ کیجیے۔ (ودع اذنھم) ” اور انہیں اذیت پہنچانے کو ترک کردیں “ کیونکہ یہ چیز ان کو قوبل اسلام کی طرف بلاتی ہے، آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو بہت سی اذیتوں سے بچاتی ہے۔ (و توکل علی اللہ) اپنے کام کی تکمیل اور اپنے دشمن کے خذلان میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجیے۔ (وکفی باللہ وکیلاً ) ” اور اللہ ہی کار ساز کافی ہے۔ “ بڑے بڑے امور اس کے سپرد کئے جاتے ہیں۔ وہ ان کا انتظام کرتا ہے اور انہیں اپنے بندے کے لئے آسان کردیتا ہے۔
Top