Tafseer-e-Saadi - Al-Ahzaab : 54
اِنْ تُبْدُوْا شَیْئًا اَوْ تُخْفُوْهُ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا
اِنْ تُبْدُوْا : اگر تم ظاہر کرو شَيْئًا : کوئی بات اَوْ تُخْفُوْهُ : یا اسے چھپاؤ فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ كَانَ : ہے بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے عَلِيْمًا : جاننے والا
اگر تم کسی چیز کو ظاہر کرو یا اس کو مخفی رکھو تو (یاد رکھو) کہ خدا ہر چیز سے باخبر ہے
آیت 54 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے گھروں میں داخل ہوتے وقت آپ کے آداب کا خیال رکھا کریں، لہٰذا فرمایا : (یایھا الذین امنوا لاتدخلوا بیوت النبی الا ان یوذن لکم الی طعام) یعنی کھانے کے لئے داخلے کی اجازت کے بغیر نبی کریم ﷺ کے گھر میں داخل نہ ہوا کرو اور نہ تم (نظرین انہ) کھانا تیار ہونے اور اس کے پکنے کا انتظار کیا کرو اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد لوٹنے میں تاخیر نہ کیا کرو۔ اس کا معنی یہ ہے کہ تم دو شرائط کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے گھروں میں دال ہوا کرو : (1) داخل ہونے کی اجازت ملنے کے بعد (2) تمہارا آپ کے گھر میں بیٹھنا ضرورت کے مطابق ہو۔ اسی لئے فرمایا : (ولکن اذا دعیتم فادخلوا فاذا طعمتم فانتشروا ولا مستانسین لحدیث) ” لیکن جب تمہیں دعوت دی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھو۔ “ یعنی کھانے سے پہلے یا بعد میں باتیں کرنے نہ لگ جاؤ۔ پھر اس ممانعت کی حکمت اور فائدہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : (ان ذلکم) یعنی ضرورت سے زیادہ تمہارا وہاں انتظار کرنا (کان یوذی النبی) ” نبی ﷺ کو تکلیف دیتا ہے ‘ یعنی وہاں تمہارا بیٹھ کر آپ کو اپنے کام کاج اور دیگر معاملات سے روکے رکھنا، آپ پر شاق گزرتا ہے اس سے آپ ﷺ کو تکلیف ہوتی ہے۔ (فیستجی منکم) ” یعنی وہ شرم کی وجہ سے تمہیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہاں سے چلے جاؤ۔ جیسا کہ عادت جا ریہ ہے کہ لوگ۔۔۔ خاص طور پر شرفاء اور باوقار لوگ۔۔۔ لوگوں کو اپنے گھروں سے نکالتے ہوئے شرماتے ہیں (3) ” اور “ لیکن (اللہ لایستحی من الحق) ” اللہ تعالیٰ حق سے نہیں شرماتا۔ “ شرعی معاملے میں اگر یہ تو ہم لاحق ہو کہ اس کے ترک کرنے میں ادب اور حیا ہے، تو کامل حزم و احتیاط یہ ہے کہ شریعت کی پیروی کی جائے اور یہ یقین رکھا جائے کہ جو چیز شریعت کے خلاف ہے اس میں کوئی ادب نہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہیں ایسا حکم دینے سے نہیں شرماتا جس میں تمہارے لئے بھلائی اور رسول ﷺ کے لئے نرمی ہو خواہ یہ حکم کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ یہ تو تھے نبی اکرم ﷺ کے گھروں میں داخل ہونے کے آداب اور رہے آپ کی ازواج مطہرات سے مخاطب ہونے کے آداب، تو اس میں دو امور ہیں کہ آیا ازواج مطہرات سے مخاطب ہونے کی کوئی حقیقی ضرورت ہے یا نہیں ؟ اگر بات چیت کرنے کی کوئی حقیقی ضرورت نہیں تو اس کو ترک کرنا ہی ادب ہے۔ اگر کوئی حقیقی ضرورت لاحق ہے، جیسے ان سے کوئی چیز، مثلاً گھر کے برتن وغیرہ طلب کرنا، تو یہ چیزیں ان سے طلب کی جائیں (من ورآء حجاب) ” پرندہ کے پیچھے سے، “ یعنی تمہارے درمیان اور اوزاج مطہرات کے درمیان ایک پردہ حائل ہو، جو نظر پڑنے سے بچائے کیونکہ دیکھنے کی ضرورت نہیں تو معلوم ہوا ازواج مطہرات کو دیکھنا ہرحال میں ممنوع ہے اور ان سے ہم کلام ہونے میں تفصیل ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے ذکر فرما دیا ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا : (ذلکم اطھر لقلوبکم وقلوبھن) ” یہ تمہارے اور انکے دلوں کے لئے بہت پاکیزگی کی بات ہے “ کیونکہ یہ طریقہ کسی قسم کے شہ بے سے بعید تر ہے اور انسان شر کی طرف دعوت دینے والے اسباب سے جتنا دور رہے گا تو یہ چیز اس کے قلب کے لئے اتنی ہی زیادہ سلامتی اور پاکیزگی کا باعث ہوگی۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام شرعی امور کی کثرت سے تفاصیل بیان کی ہیں، نیز یہ بھی واضح کیا ہے کہ برائی کے تمام وسائل، اسباب اور مقدمات ممنوع ہیں اور ہر طریقے سے ان سے دور رہنا مشروع ہے، پھر ایک جامع بات اور ایک عام قاعدہ کلیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : (ما کان لکم) اے مومنو ! تمہارے لائق ہے نہ یہ مستحسن ہے، بلکہ یہ قبیح ترین بات ہے (ان توذوا رسول اللہ) ” کہ تم رسول اللہ کو تکلیف پہنچاؤ۔ “ یعنی قول و فعل اور ان سے متعلق تمام امور کے ذریعے سے اذیت پہنچاؤ۔ (ولا ان تکحوا ازواجہ من بعدہ ابداً ) ” اور نہ (تمہارے لئے یہ حلال ہے کہ) آپ کے بعد کسی وقت بھی آپ کی بیویوں سے نکاح کرو۔ “ یہی چیز ان جملہ امور میں داخل ہے جن سے آپ کو اذیت پہنچتی ہے۔ بیشک آپ ﷺ تعظیم اور رفعت و اکرام کے مقام کے حالم ہیں آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات سے نکاح کرنا، اس مقام کے منفای ہے، نیز اواج مطہرات، دنیا و آخرت میں آپ کی بیویاں ہیں، زوجیت کا یہ رشتہ آپ کی وفات کے بعد بھی باقی ہے اس لئے وہ آپ کی امت میں سے کسی کے لئے جائز نہیں۔ (ان ذلکم کان عند اللہ عظیماً ) ” یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا (گناہ کا کام) ہے۔ “ امت مسلمہ نے اس حکم کی تعمیل کی اور ان امور سے اجتناب کیا جن سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے روکا تھا۔ وللہ الحمد و الشکر پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (ان تبدوا شیاء) یعنی اگر تم کسی چیز کو ظاہر کرو (او تخفوہ فان اللہ کان بکل شیء علیماً ” یا اس کو تم چھپاؤ، تو اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ “ یعنی جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے اور وہ تمہیں خوب جانتا ہے اور وہ تمہیں اس کی جزا دے گا۔
Top