Tafseer-e-Saadi - An-Naml : 58
وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُؤْذُوْنَ : ایذا دیتے ہیں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن مرد (جمع) وَالْمُؤْمِنٰتِ : اور مومن عورتیں بِغَيْرِ : بغیر مَا اكْتَسَبُوْا : کہ انہوں نے کمایا (کیا) فَقَدِ احْتَمَلُوْا : البتہ انہوں نے اٹھایا بُهْتَانًا : بہتان وَّاِثْمًا : اور گناہ مُّبِيْنًا : صریح
اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام (کی تہمت سے) جو انہوں نے نہ کیا ہو ایذا دیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا
آیت 58 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول ﷺ کی تعظیم اور آپ پر صلوۃ وسلام کا حکم دینے کے بعد، آپ کو اذیت پہنچانے سے منع کیا اور جو آپ کو اذیت پہنچائے اس کو سخت عذاب کی وعید سنائی ہے، چناچہ فرمایا : (ان الذین یوذون اللہ ورسولہ) ” بیشک وہ لوگ جو ایذا پہنچاتے ہیں اللہ کو اور اس کے رسول کو “ یہ آیت کریمہ ہرق سم کی قولی و فعلی اذیت سب وشتم، آپ کی تنقیص، آپ کے دین کی تنقیص اور ہر ایسا کام جس سے آپ کو اذیت پہنچے، سب کو شامل ہے۔ (لعنھم اللہ فی الدنیا) ” ان پر دنیا میں اللہ کی پھٹکار ہے۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں رحمت سے دور کر کے دھتکار دیا ہے۔ دنیا کے اندر ان پر لعنت یہ ہے کہ شاتم رسول کی حتمی سزا قتل ہے۔ (والاخرۃ واعدلھم عذاباً مھینا) ” اور آخرت میں بھی اور انکے لئے اللہ نے انتہائی رسوا کن عذاب تیار کیا ہے۔ “ اس اذیت رسانی کی جزا کے طور پر ایذا دینے والے کو درد ناک عذاب دیا جائے گا۔ رسول ﷺ کو تکلیف پہنچانا کسی عام آدمی کو تکلیف پہنچانے کی مانند نہیں ہے کیونکہ بندہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لاسکتا جب تک کہ وہ اس کے رسول ﷺ پر ایمان نہ لائے۔ آپ کی تعظیم کرنا لوازم ایمان میں شامل ہے اور یہ چیز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ آپ کسی اور کی مانند نہیں۔ اہل ایمان کو بھی اذیت پہنچانا بہت بڑی برائی ہے اور اس کا گناہ بھی بہت بڑا ہے اس لئے اس ایذا رسانی کے بارے میں فرمایا : (والذین یوذون المومنین والمومنت بغیر ما اکتسبوا) ” اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام کی وجہ سے ایذا دیں جو انہوں نے نہ کیا۔ “ یعنی ان کے کسی ایسے جرم کے بغیر، جو ان کو اذیت دینے کا موجب ہو (فقد احتملوا) تو ایذا دینے والوں نے اپنی پیٹھ پر اٹھایا (بھتاناً ) ” بہت بڑا (1) صحیح البخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب :10، حدیث 3380 بہتان “ کیونکہ انہوں نے کسی سبب کے بغیر اہل ایمان کو اذیت پہنچائی (واثما مبیناً ) ” اور واضح گناہ (کا بوجھ اٹھایا) ” کیونکہ انہوں نے اہل ایمان پر زیادتی کی اور انہوں نے اس حرمت کی ہتک کی جس کے احترام کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا، اس لئے عام الہ ایمان کو سب و شتم کرنا، ان کے احوال اور مرتبے کے مطابق، موجب تعزیر ہے۔ صحابہ کرام کو سب و شتم کرنے والے کے لئے اس سے بڑھ کر تعزیز ہے۔ اہل علم اور متدین حضرات کو سب وشتم کرنے والا عام لوگوں کو سب و شتم کرنے والے سے بڑھ کر تعزیر اور سزا کا مستحق ہے۔
Top