Tafseer-e-Saadi - Al-Ahzaab : 64
اِنَّ اللّٰهَ لَعَنَ الْكٰفِرِیْنَ وَ اَعَدَّ لَهُمْ سَعِیْرًاۙ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَعَنَ : لعنت کی الْكٰفِرِيْنَ : کافروں پر وَاَعَدَّ : اور تیار کیا اس نے لَهُمْ : ان کے لیے سَعِيْرًا : بھڑکتی ہوئی آگ
بیشک خدا نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے (جہنم کی) آگ تیار کر رکھی ہے
آیت 64 لوگ جلدی مچاتے ہوئے آپ سے قیامت کی گھڑی کے بارے میں پوچھتے ہیں اور ان میں سے بعض تکذیب کے طور پر اور خبر دینے والے کو اس بارے میں عاجز سمجھتے ہوئے پوچھتے ہیں تو (قل) ” آپ کہہ دیجیے “ ان سے : (انما علمھا عند اللہ) اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اس لئے مجھے یا کسی اور کو اس کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ بایں ہمہ تم اسے زیادہ دور نہ سمجھو۔ (وما یدریک لعل الساعۃ تکون قریباً ) ” اور آپ کو کیا معلوم ہے شاید قیامت قریب ہی آگئی ہو “ یعنی قیامت کی گھڑی کے مجرد قریب یا بعید ہونے میں کوئی فائدہ یا نتیجہ نہیں، حقیقی نتیجہ تو خسارہ یا نفع اور بدبختی یا خوش بختی ہے، نیز آیا بندہ عذاب کا مستحق ہے یا ثواب کا ؟ اور ان امور کے بارے میں تمہیں میں خیر دیتا ہوں اور میں بتاتا ہوں کہ ان کا مستحق کون ہے ؟ لہٰذا آپ نے عذاب کے مستحق لوگوں کا وصف بیان کیا اور اس عذاب کا وصف بیان کیا جس میں ان کو مبتلا کیا جائے گا کیونکہ یہ وصف مذکور آخرت کی تکذیب کرنے والوں پر منطبق ہوتا ہے۔ (ان اللہ لعن الکفرین) ” بیشک اللہ تعالیٰ نے کافروں پر لعنت کی ہے۔ “ یعنی جن کی عادت اور فطرت اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول اور جسے لے کر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں اس کا کفر اور انکار کرنا ہے انہیں اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں اپنی رحمت سے دور کردیا اور سزا کے لئے یہی کافی ہے (واعدلھم سعیراً ) ” اور تیار کی ہے ان کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ۔ “ یعنی انکے لئے آگ بھڑکائی جائے گی جس میں ان کے جسم جلیں گے، آگ ان کے دلوں تک پہنچ جائے گی وہ اس سخت عذاب میں ہمیشہ رہیں گے۔ وہ اس عذاب سے کبھی نکل سکیں گے نہ عذاب میں کبھی کمی آئے گی اور (لایجدون) ” وہ نہیں پائیں گے “ اپنے لئے (ولیا) ” کوئی دوست “ جو ان کو وہ کچھ دے سکے جو وہ طلب کریں (ولا نصیراً ) ” اور نہ کوئی مددگار “ جو ان سے عذاب کو دور کرسکے بلکہ تمام مددگار ان کو چھوڑ جائیں گے اور بھڑکتی ہوئی آگ کا سخت عذاب انہیں گھیر لے گا۔ اس لئے فرمایا : (یوم تقلب وجوھھم فی النار) ” جس دن ان کے منہ آگ میں الٹائے جائیں گے۔ “ پس وہ آپ کی شدید حرارت کا مزا چکھیں گے، آگ کا عذاب ان پر بھڑک اٹھے گا۔ وہ اپنے گزشتہ اعمال پر حسرت کا اظہار کریں گے۔ (یقولون یلیتنا اطعنا اللہ واطعانا الرسولا) ” وہ کہیں گے کہ کاش ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی “ اور یوں ہم اس عذاب سے بچ جاتے اور اطاعت مندوں کی طرح ہم بھی ثواب جزیل کے مستحق ٹھہرتے۔ مگر یہ ان کی ایسی آرزو ہے جس کا وقت گزر چکا۔ جس کا اب حسرت، ندامت، غم اور الم کے سوا کوئی فائدہ نہیں۔ (وقالوا ربنا انا طعنا سادتنا وکبرآء نا) ” اور کہیں گے : اے ہمارے رب ! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کا کہا مانا “ اور ہم نے گمراہی میں ان کی تقلید کی (فاضلونا السبیلا) ” تو انہوں نے ہمیں راستے سے بھٹکا دیا۔ “ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” اور ظالم اس روز اپنے ہاتھوں پر کاٹے گا اور کہے گا، کاش میں نے رسول کا راستہ اختیار کیا ہوتا۔ ہائے میری ہلاکت ! کاش میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا اس نے مجھے نصیحت کے بارے میں گمراہ کردیا جب وہ میرے پاس آئی۔ “ جب انہیں معلوم ہوجائے گا کہ وہ اور ان کے سردار عذاب کے مستحق ہیں تو وہ ان کو عذاب میں دیکھنا چاہیں گے جنہوں نے ان کو گمراہ کیا، چناچہ وہ کہیں گے : (ربنا اتھم ضعفین من العذاب و العنھم لعنا کبیراً ) ” اے ہمارے بر ! ان کو دگنا عذبا دے اور ان پر بڑی لعنت کر۔ “ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ایک کے لئے دوہرا عذاب ہے تم سب کفر اور معاصی میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک تھے، لہٰذا عذاب میں بھی تم ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہو گے اگرچہ تمہارے جرم میں تفاوت کے مطابق تمہارے عذاب میں بھی تفاوت ہوگا۔
Top