Tafseer-e-Saadi - Faatir : 5
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا١ٙ وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اِنَّ : بیشک وَعْدَ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ حَقٌّ : سچا فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ : پس ہرگز تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا ۪ : دنیا کی زندگی وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ : اور تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے بِاللّٰهِ : اللہ سے الْغَرُوْرُ : دھوکہ باز
لوگو ! خدا کا وعدہ سچا ہے تو تم کو دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ (شیطان) فریب دینے والا تمہیں فریب دے
آیت 5 (یا یھا الناس ان وعدا للہ) ” اے لوگو ! بیشک اللہ کا وعدہ “ یعنی مرن یکے بعد دوبارہ زندہ کرنے اور اعمال کی جزا و سزا کا وعدہ (حق) ” حق ہے۔ “ اس میں شک و شبہ اور کوئی تردد نہیں، سا پر تمام دلائل نقلیہ اور براہین عقلیہ دلالت کرتے ہیں۔ جب اس کا وعدہ سچا ہے تو اس کے لئے تیاری کرو اپنے اچھے اوقات میں نیک اعمال کی طرف سبقت کرو اور کوئی راہزن تمہاری راہ کھوٹی نہ کرنے پائے۔ (فلا تغرنکم الحیوۃ الدنیا) ” لہٰذا دنیاوی زندگی تمہیں دھوکے میں مبتلا نہ کر دے “ اپنی لذات و شہوات اور اپنے نفسانی مطالبات کے ذریعے سے تمہیں ان مقاصد سے غافل نہ کر دے جن کے لئے تمہیں تخلیق کیا گیا ہے۔ (ولایغرنکم باللہ الغرور) ” اور نہ فریب دینے والا تمہیں فریب دے۔ “ جو کہ (لشیطن) ” شیطان ہے “ وہ حقیقت میں تمہارا دشمن ہے (فاتخذوہ عدواً ) ” لہٰذا تم بھی اسے دشمن جانو ‘ یعنی تمہاری طرف سے اس کے لئے دشمنی ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ جنگ میں کسی بھی وقت ڈھیلے نہ پڑو۔ وہ تمہیں دیکھتا ہے، تم اسے نہیں دیکھ سکتے، وہ ہمیشہ تمہاری گھات میں رہتا ہے۔ (انما یدعوا حزبہ لیکونوا من اصحب السعیر) ” بلا شبہ وہ اپنے گموہ کو بلاتا ہے تاکہ وہ دوزخ والوں میں ہوں۔ “ یہی اسکی غرض وغایت اور مطلوب و مقصود ہے کہ اس کی اتباع کرنے والوں کی سخت عذبا کے ذریعے سے رسوائی ہو۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ لوگ شیطان کی اطاعت اور عدم اطاعت سے دو گروہوں میں منقسم ہیں، پھر ہر گروہ کی سزا و جزا کا تذکرہ کیا، فرمایا : (الذین کفروا) یعنی وہ لوگ جنہوں نے رسولوں کی دعوت اور ان چیزوں کا انکار کیا جن پر کتبہ الہیہ دلالت کرتی تھیں (لھم عذاب شدید) ان کے لئے جہنم کی آگ میں سخت عذاب ہے۔ یہ عذاب اپنی ذات وصفات کے اعتبار سے نہایت سخت عذاب ہوگا جہاں وہ ابدالآباد تک رہیں گے۔ (والذین امنوا) اور جو اپنے دل سے ان امور پر ایمان لائے جن پر ایمان لانے کی اللہ تعالیٰ نے دعوت دی ہے۔ (وعملوا) پھر انہوں نے اس ایمان کے تقاضوں کے مطابق عمل کئے (الصلحت لھم مغفرۃ) ” نیک تو ان کے لئے (ان کے گناہوں کی) مغفرت ہے۔ “ اس مغفرت کی بنا پر ان سے ہر قسم کا شر اور برائی دور ہوجائے گی۔ (واجر کبیر) ” اور بڑا اجر ہے “ جس کے ذریعے سے انہیں اپنا مطلوب و مقصو حاصل ہوگا۔
Top