Tafseer-e-Saadi - Yaseen : 33
وَ اٰیَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ١ۖۚ اَحْیَیْنٰهَا وَ اَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ یَاْكُلُوْنَ
وَاٰيَةٌ : ایک نشانی لَّهُمُ : ان کے لیے الْاَرْضُ : زمین الْمَيْتَةُ ښ : مردہ اَحْيَيْنٰهَا : ہم نے زندہ کیا اسے وَاَخْرَجْنَا : اور نکالا ہم نے مِنْهَا : اس سے حَبًّا : اناج فَمِنْهُ : پس اس سے يَاْكُلُوْنَ : وہ کھاتے ہیں
اور ایک نشانی ان کیلئے زمین مردہ ہے کہ ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس میں سے اناج اگایا پھر یہ اس میں سے کھاتے ہیں
آیت 33 (وایۃ لھم ) ” ان کے لئے ایک نشانی ہے۔ “ یعنی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ اٹھائے جانے، حشر و نشر، حساب کتاب کے لئے اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونے اور ان اعمال کی جزا و سزا پر دلیل ہے۔ (آیت) ” مردہ زمین “ جس پر اللہ تعالیٰ نے پانی برسا یا اور اس کے مردہ ہوجانے کے بعد اسے دوبارہ زندگی عطا کی۔ (آیت) ” یعنی ہم نے اس زمین میں سے ان تمام زرعی اصناف کو اگایا جن کو لوگ خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور ان اصناف کو بھی جن کو ان کے مویشی کھاتے ہیں (وجعلنا فیھا) یعنی ہم نے اس مردہ زمین میں اگائے (جنت) باغات جن میں بیشمار درخت ہیں، خاص طور پر کھجور اور انگور، جن کے درخت بہترین درخت ہیں (وفجرنا فیھا) اور ہم نے اس میں جاری کئے یعنی زمین میں (من العیون) ” چشمے “ ہم نے زمین کے اندر یہ درخت، یعنی کھجور اور انگور اگائے (لیاکلوا من ثمرہ) تاکہ یہ انہیں بطور خوراک، پھل، سالن اور لذت استعمال کریں (و) حالانکہ ان پھلوں کو (ماعملتہ ایدیھم) ” ان کے ہاتھوں نے تخلیق نہیں کیا۔ “ ان میں سے ان کی کوئی صنعت کاری ہے نہ ان کی کسی کاری گری کا عمل دخل، یہ تو اللہ، احکم الحاکمین اور خیر الرزازقین کی تخلیق کا کمال ہے، نیز ان پھلوں کو آگ پر پکائے جانے کی ضرورت ہی نہیں۔ ان پھلوں کو درختوں سے توڑ کر اسی وقت اور اسی حال میں کھایا جاسکتا ہے (افلا یشکرون) جس ہستی نے ان تک یہ نعمتیں پہنچائیں، جس نے اپنے بےپایاں فضل و کریم کی بنا پر ان کو ایسے امور سے نوازا جن میں ان کے دین و دنیا کی بھلائی ہے، تو یہ اس ہسی کا شکر کیوں نہیں کرتے ؟ کیا وہ ہستی جس نے زمین کے مرنے کے بعد اسے زندہ کیا، اس میں کھیتیاں اور درخت اگائے، ان میں نہایت لذیذ اقسام کے پھل ودیعت کئے، ان پھلوں کو ان درختوں کی شاخوں پر نمایاں کیا اور خشک زمین پر پانی کے چشمے جاری کئے۔۔۔ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں ؟ کیوں نہیں ؟ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آیت) ” پاک ہے وہ ذات جس نے اس (زمین) کی ہر چیز کے جوڑے بنائے۔ “ یعنی تمام اصناف کو تخلیق فرمایا (مما تنبت الارض) ” زمین کی نباتات سے “ اس نے زمین میں ایسی ایسی اصناف تخلیق فرمائیں جن کو شمار کرنا بہت مشکل ہے (ومن انفسھم) یعنی خود ان کو مرد اور عورت کی اصناف میں پیدا کیا، ان کی تخلق، فطرت اور ان کے اوصاف ظاہری و باطنی میں تفاوت پیدا کیا۔ (ومما لایعلمون) اور ان مخلوقات کی اصناف کو پیدا کیا جو ہمارے علم کی گرفت سے باہر ہیں اور وہ مخلوقات جو اس کے بعد پیدا ہی نہیں کی گئیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کا کوئی شریک، مددگار، معاون، وزیر، بیوی، یا کوئی بیٹا ہو، وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی صفات کمال اور نعوت جلال میں اس کا ہم سر، مثیل یا کوئی مشابہت کرنے والا ہو یا اسے کوئی اپنے ارادے سے باز رکھ سکے۔
Top