Tafseer-e-Saadi - Az-Zumar : 14
قُلِ اللّٰهَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهٗ دِیْنِیْۙ
قُلِ : فرمادیں اللّٰهَ اَعْبُدُ : میں اللہ کی عبادت کرتا ہوں مُخْلِصًا : خالص کر کے لَّهٗ : اسی کے لیے دِيْنِيْ : اپنی عبادت
کہہ دو کہ میں اپنے دین کو (شرک سے) خالص کر کے اس کی عبادت کرتا ہوں
آیت 14 (قد) اے رسول ! لوگوں سے کہہ دیجیے : (انی امرت ان اعبداللہ مخلصاً لہ الدین) ” بلاشبہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں دین کو اللہ کے لئے خلاص کرتے ہوئے، اس کی عبادت کروں “ جیسا کہ اس سورة مبارکہ کی ابتدا میں فرمایا : (آیت) ” پس آپ اللہ کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کرو۔ “ (وامرت لان اکون اول المسلمین) ” اور مجے حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں خود مسلمان بنوں “ کیونکہ میں مخلوق کے لئے داعی اور ان کے رب کی طرف ان کی راہنمائی کرنے والا ہوں، یہ چیز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ جس کام کا حکم دیا جائے میں تمام لوگوں سے پہلے اس حکم کی تعمیل کروں اور سب سے پہلے میں اس کے سامنے سرتسلیم خم کروں۔ اس حکم کو بجا لانا رسول اللہ ﷺ پر اور ان لوگوں پر لازم ہے جو آپ کے اتباع کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ظاہری اعمال میں اسلام پر عمل کرنا اور ظاہری اور باطنی اعمال میں اللہ کے لئے اخلاص کو مدنظر رکھنا واجب ہے۔ (قل انی اخاف ان عصیت ربی) ” کہہ دیجیے کہ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے اندیشہ ہے “ یعنی اخلاص اور اسلام کے بارے میں میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے (عذاب یوم عظیم) ” بڑے دن کے عذاب کا “ جس نے شرکا کا ارتکاب کیا وہ اس عذاب میں ہمیشہ رہے گا اور جس نے گناہ کیا اسے اس عذاب کے ذریعے سے سزا دی جائے گی۔ (آیت) ” کہہ دیجیے ! میں تو اپنے دین کو اللہ کے لئے خالص کر کے صرف اسی کی عبادت کرتا ہوں۔ تم اسے چھوڑ کر جس کی چاہو عبادت کرتے رہو “ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا : (آیت) ” کہہ دیجیے اے کافرو ! جن کی تم عبادت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا، نہ تم اس ہستی کی عبادت کرتے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں، نہ میں ان ہستیوں کی عبادت کرسکتا ہوں، جن کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم اس ہستی ہی کی عبادت کرتے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں، تمہارا دین تمہارے لئے اور میرا دین میرے لئے ہے۔ “ (قل ان الخسرین) ” کہہ دیجیے کہ نقصان اٹھانے والے “ درحقیقت وہ لوگ ہیں۔ (الذین خسروآ انفسھم) ” جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا اور اپنے آپ کو ثواب سے محروم کیا اور اس سبب سے وہ بدترین عذاب کے مستحق ٹھہرے (واھلیھم یوم القیمۃ) ” اور اپنے گھر والوں کو قیامت کے دن “ ان کے درمیان اور گھر والوں کے درمیان جدائی ڈال دی جائے گی۔ شدید حزن و غم اٹھیں آ گھیرے گا اور وہ بہت بڑے گھاٹے میں پڑجائیں گے۔ (الا ذلک ھو الخسران المبین) ” خبر دار ! یہی صریح خسارہ ہے۔ “ اس جیسا اور کوئی خسارہ نہیں اور یہ دائمی خسارہ ہے جس کے بعد کوئی نفع نہیں، بلکہ اس کے بعد سلامتی ہی نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس بدتر بدبختی کا ذکر فرمایا جس میں یہ لوگ مبتلا ہوں گے چناچہ فرمایا : (لھم من فوقھم ظل من النار) ” ان کے اوپر آگ کے سائبان ہوں گے۔ “ یعنی بادل کے مانند عذاب کے بڑے بڑے ٹکڑے ہوں گے۔ (ومن تحتھم ظل) ” اور ان کے نیچے بھی (آگ کے) سائبان ہوں گے “ (ذلک) یعنی جہمینوں کے عذاب کا یہ وصف جو ہم نے بیان کیا ہے ایک ایسا کوڑا ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی رحمت کے سائے کی طرف ہانکتا ہے۔ (یخوف اللہ بہ عبادہ یعباد فاتقون) ” اللہ اس عذاب کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، لہذا اے میرے بندو ! مجھ سے ڈرتے رہو۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ نے جہنمیوں کے لئے جو عذاب تیار کر رکھا ہے، یہ اس کے بندوں کو تقویٰ کی طرف بلاتا ہے اور ان امور پر زجر و توبیخ ہے جو عذاب کے موجب ہیں۔ پاک ہے وہ ذات جو ہر چیز میں اپنے بندوں پر رحم کرتی ہے، جس نے اپنے (اللہ) تک پہنچانے والے راستوں کو ان کے لئے نہایت سہل بنایا، ان پر گامزن ہونے کے لئے ان کو آمادہ کیا اور ہر ایسے طریقے سے ان کو ترغیب دی جن کے ذریعے سے نفوس انسانی میں شوق پیدا ہوتا ہے اور اس سے قلب کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے سوا دیگر اعمال سے ڈرایا ہے اور ان کے سامنے ان اسباب کا بھی ذکر کیا ہے جو انہیں ان اعمال کو ترک کرنے سے روکتے ہیں۔
Top