Tafseer-e-Saadi - Az-Zumar : 17
وَ الَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْهَا وَ اَنَابُوْۤا اِلَى اللّٰهِ لَهُمُ الْبُشْرٰى١ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِۙ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اجْتَنَبُوا : بچتے رہے الطَّاغُوْتَ : سرکش (شیطان) اَنْ : کہ يَّعْبُدُوْهَا : اس کی پرستش کریں وَاَنَابُوْٓا : اور انہوں نے رجوع کیا اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف لَهُمُ : ان کے لیے الْبُشْرٰى ۚ : خوشخبری فَبَشِّرْ : سو خوشخبری دیں عِبَادِ : میرے بندوں
اور جنہوں نے اس سے اجتناب کیا کہ بتوں کو پوجیں اور خدا کی طرف رجوع کیا تو ان کے لئے بشارت ہے تو میرے بندوں کو بشارت سنا دو
آیت 17 اللہ تبارک و تعالیٰ مجرمین کا حال بیان کرنے کے بعد اپنی طرف رجوع کرنے والے بندوں کا حال بیان کرتے اور ان کے لئے ثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : (والذین اجتنبوا الطاغوت ان یعبدوھا) ” اور وہ لوگ جو طاغوت کی عبادت کرنے سے بچتے رہے۔ “ اس مقام پر طاغوت سے مراد، غیر اللہ کی عبادت ہے یعنی جنہوں نے غیر اللہ کی عبادت سے اجتناب کیا۔ یہ حکیم وعلیم کی طرف سے بہترین احتراز ہے، کیونکہ مدح تو صرف اسی شخص کو پہنچتی ہے جو ان کی عبادت سے بچتا ہے (وانا بوا الی اللہ) اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اخلاص دین کے ذریعے سے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ان کی فطرت کے داعیے بتوں کی عبادت کو چھوڑ کرلیتے ہیں۔ (لھم البشری) ” ان کے لئے ایسی خوش خبری ہے “ جس کا اندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے اور صرف وہی لوگ اس سے واقف ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اس خوش خبری سے سرفراز فرمایا ہے۔ اس میں دنیا کے اندر وہ بشارت بھی شامل ہے جو بندہ مومن کو ثنائے حسن، سچے خوابوں اور عنایت ربانی کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ انہیں اس بشارت کے اندر صاف دکھائی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اپنے بندوں کا اکرام چاہتا ہے۔ ان کے لئے موت کے وقت، قبر کے اندر اور قیامت کے روز خوش خبری ہے اور ان کے لئے اخرت بشارت وہ ہے جو رب کریم ان کو اپنی دائمی رضا، اپنے فضل و احسان اور جنت کے اندر امان کی صورت میں دے گا۔ جب اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ان مومن بندوں کے لئے خوش خبری ہے تو اس نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ ان کو خوش خبری دے دیں اور وہ وصف بھی ذکر کردیا جس کی بنا پر وہ بشارت کے مستحق قرار پائے ہیں۔ (فبشر عباد، الذین یستبعون القول) ” پس میرے بندوں کو خوش خبری سنا دو ، جو بات کو سنتے ہیں “ یہاں (الوقل) ہر قسم کی بات کو شامل ہے۔ وہ بات کو سنتے ہیں تاکہ وہ امتیاز کرسکیں کہ کس بات کو ترجیح دی جائے اور کس بات سے اجتناب کیا جائے۔ یہ ان کا حزم و احتیاط اور عقل مندی ہے کہ وہ اس میں سے بہترین بات کی پیروی کرت یہیں۔ بہترین کلام علی الاطلاق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا کلام ہے۔ جیسا کہ آگے چل کر اسی سورة مبارکہ میں فرمایا : (آیت) ” اللہ ن یبہترین کلام نازل کیا ہے ایک ایسی کتاب کی صورت میں جو ایک دوسرے کے مشابہ ہے۔ “ اس آیت کریمہ میں یہ نکتہ پنہاں ہے کہ جب ان ممدوح لوگوں کا یہ وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس میں سے بہترین قول کا اتباع کرتے ہیں، تو گویا یہ کہا گیا ہے کہ آیا کوئی ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے سے بہترین کلام کی معرفت حاصل ہو ؟ تاکہ ہم بھی عقل مندوں کی صفات سے متصف ہوجائیں اور جو کوئی اس صفت سے متصف ہو تو ہمیں پتا چل جائے کہ یہ مقلمندوں میں سے ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں ! بہترین کلام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے منصوص فرمایا : (اللہ نزل احسن الحدیث کتبا متشابھا (الزمر :23/39) ” اللہ نے بہترین کلام نازل کیا ہے ایک ایسی کتاب کی صورت میں جو ایک دوسرے کے مشابہ ہے۔ “ (آیت) ” وہ لوگ جو بات کو توجہ سے سنتے ہیں پھر اس کے بہترین پہلو کا اتباع کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت بخشی ہے ‘ یعنی بہترین اخلاق و اعمال کی طرف (واولئک ھم اولوا الالباب) ” اور یہی لوگ عقلمند ہیں۔ “ یعنی پاک عقل کے مالک ہیں۔ یہ ان کی عقل مندی اور ان کا حزم و احتیاط ہے کہ انہوں نے قول حسن اور غیر حسن کو پہچان لیا اور پھر اس قول کو ترجیح دی جس کو ترجیح دی جانی چاہیے تھی اور یہ عقل مندی کی علامت ہے، بلکہ عقل مندی کے لئے اس کے علاوہ کوئی اور علامت نہیں ہے، کیونکہ وہ شخص جو قول حسن اور غیر حسن میں امتیاز نہیں کرسکتا، ان لوگوں کے زمرے میں نہیں آتا جو عقل صحیح کے مالک ہیں یا وہ اچھی اور بری بات کے درمیان امتیاز تو کرسکتا ہے لیکن جب شہوت نفس عقل پر غالب آجاتی ہے اور عقل شہوت کی محض تابع ہوجاتی ہے تو وہ بہترین کلام کی تعظیم نہیں کرتا تب وہ ناقص العقل قرار پاتا ہے۔
Top