Tafseer-e-Saadi - Az-Zumar : 64
قُلْ اَفَغَیْرَ اللّٰهِ تَاْمُرُوْٓنِّیْۤ اَعْبُدُ اَیُّهَا الْجٰهِلُوْنَ
قُلْ : فرمادیں اَفَغَيْرَ اللّٰهِ : تو کیا اللہ کے سوا تَاْمُرُوْٓنِّىْٓ : تم مجھے کہتے ہو اَعْبُدُ : میں پرستش کروں اَيُّهَا : اے الْجٰهِلُوْنَ : جاہلو (جمع)
کہہ دو کہ اے نادانو ! تم مجھ سے یہ کہتے ہو کہ میں غیر خدا کی پرستش کرنے لگوں
آیت 64 (قل) اے رسول ! ان جہلا سے، جو آپ کو غیر اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے ہیں، کہہ دیجیے : (آیت) ” اے جاہلو ! کیا تم مجھے یہ کہتے ہو کہ میں اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کروں۔ “ یہ معاملہ تمہاری جہالت کی بنا پر صادر ہوا ہے ورنہ اگر تمہیں اس بات کا علم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے کامل ہے وہی نعمتیں عطا کرتا ہے اور وہی عبادت کا مستحق ہے اور وہ ہستیاں عبادت کی مستحق نہیں جو ہر لحاظ سے ناقص ہیں، جو نفع دے سکتی ہیں نہ نقصان، تب تم مجھے ان کی عبادت کا کیوں حکم دیتے ہو ؟ شرک اعمال کو اسقط اور احوال کو فاسد کردیتا ہے، بنا بریں فرمایا : (آیت) ” اور (اے نبی ! ) آپ کی طرف اور ان کی طرف جو تم سے پہلے ہوچکے ہیں یہ وحی کی گئی “ یعنی تمام انبیائے کرام کی طرف (لئن اشرکت لیجطن عملک) ” اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے اسرے عمل برباد ہوجائیں گے۔ “ یہ مفرد مضاف ہے جو تمام اعمال کو متضمن ہے۔ اسبقہ جمیع انبیائے کرام کی نبوتوں میں یہ حکم تھا کہ شرک تمام اعمال کو ضائع کردیتا ہے جی اس کہ سورة الانعام میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد ان کے بارے میں فرمایا : (آیت) ” یہ ہے اللہ کی ہدایت، وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس طرح کی ہدایت دے دیتا ہے اور اگر یہ لوگ (انبیائے کرام) شرک کرتے ہوئے تو ان کا اسرا کیا دھرا ضائع ہوجاتا ہے۔ “ (ولتکونن من الخسرین) ” اور آپ (دین اور آخرت کے بارے میں) خاسرے میں پڑجائیں گے۔ “ پس معلوم ہوا کہ شرک سے تمام اعمال اکارت ہوجاتے ہیں اور بندہ عذاب اور سزا کا مستحق بن جاتا ہے۔ پھر فرمایا : (بل اللہ فاعبد) ” بلکہ آپ اللہ ہی کی عبادت کیجیے۔ “ اللہ تعالیٰ نے جب جہلا کے بارے میں آگاہ فرمایا کہ وہ آپ کو شرک کا حکم دیتے ہیں اور یہ خبر بھی دی کہ شرک بہت قبیح جرم ہے تو نبی ﷺ کو اخلاص کا حکم دیا اور فرمایا : (بل اللہ فاعبد) یعنی اللہ وحدہ لاشریک کے لئے اپنی عبادت کو خالص کیجیے (وکن من الشکرین) اور اللہ تعالیٰ کی توفیق پر اس کا شکر ادا کیجیے۔ جس طرح دنیاوی نعمتوں، مثلاً جسمانی صحت و عافیت اور حصول رزق وغیرہ پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جاتا ہے اسی طرح دینی نعمتوں، مثلاً توفیق اخلاص اور تقویٰ وغیرہ پر بھی اس کا شکر ادا کیا جاتا اور اس کی حمد وثناء کی جاتی ہے، بلکہ دینی نعمتیں ہی حقیقی نعمتیں ہیں اور یہ تدبر کرنا کہ یہ تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہیں اور ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا واجب ہے کیونکہ یہ اناسن کو غرور اور خودپسندی کی آفت سے محفوظ رکھتا ہے۔ بہت سے عمل کرنے والے اپنی جہالت کے باعث غرور میں مبتلا ہوجاتے ہیں ورنہ اگر بندہ حقیقت حال کی معرفت حاصل کرلے تو اللہ تعالیٰ کی کسی نعمت پر غرور میں مبتلا نہ ہو جو زیادہ سے زیادہ شکر کی مستحق ہے۔
Top