Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Saadi - An-Nisaa : 11
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ١ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ١ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ١ۚ وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ١ؕ وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
يُوْصِيْكُمُ
: تمہیں وصیت کرتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
فِيْٓ
: میں
اَوْلَادِكُمْ
: تمہاری اولاد
لِلذَّكَرِ
: مرد کو
مِثْلُ
: مانند (برابر
حَظِّ
: حصہ
الْاُنْثَيَيْنِ
: دو عورتیں
فَاِنْ
: پھر اگر
كُنَّ
: ہوں
نِسَآءً
: عورتیں
فَوْقَ
: زیادہ
اثْنَتَيْنِ
: دو
فَلَھُنَّ
: تو ان کے لیے
ثُلُثَا
: دوتہائی
مَا تَرَكَ
: جو چھوڑا (ترکہ)
وَاِنْ
: اور اگر
كَانَتْ
: ہو
وَاحِدَةً
: ایک
فَلَھَا
: تو اس کے لیے
النِّصْفُ
: نصف
وَلِاَبَوَيْهِ
: اور ماں باپ کے لیے
لِكُلِّ وَاحِدٍ
: ہر ایک کے لیے
مِّنْهُمَا
: ان دونوں میں سے
السُّدُسُ
: چھٹا حصہ 1/2)
مِمَّا
: اس سے جو
تَرَكَ
: چھوڑا (ترکہ)
اِنْ كَانَ
: اگر ہو
لَهٗ وَلَدٌ
: اس کی اولاد
فَاِنْ
: پھر اگر
لَّمْ يَكُنْ
: نہ ہو
لَّهٗ وَلَدٌ
: اس کی اولاد
وَّوَرِثَهٗٓ
: اور اس کے وارث ہوں
اَبَوٰهُ
: ماں باپ
فَلِاُمِّهِ
: تو اس کی ماں کا
الثُّلُثُ
: تہائی (1/3)
فَاِنْ
: پھر اگر
كَانَ لَهٗٓ
: اس کے ہوں
اِخْوَةٌ
: کئی بہن بھائی
فَلِاُمِّهِ
: تو اس کی ماں کا
السُّدُسُ
: چھٹا (1/6)
مِنْۢ بَعْدِ
: سے بعد
وَصِيَّةٍ
: وصیت
يُّوْصِيْ بِھَآ
: اس کی وصیت کی ہو
اَوْ دَيْنٍ
: یا قرض
اٰبَآؤُكُمْ
: تمہارے باپ
وَاَبْنَآؤُكُمْ
: اور تمہارے بیٹے
لَا تَدْرُوْنَ
: تم کو نہیں معلوم
اَيُّھُمْ
: ان میں سے کون
اَقْرَبُ لَكُمْ
: نزدیک تر تمہارے لیے
نَفْعًا
: نفع
فَرِيْضَةً
: حصہ مقرر کیا ہوا
مِّنَ اللّٰهِ
: اللہ کا
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
كَانَ
: ہے
عَلِيْمًا
: جاننے والا
حَكِيْمًا
: حکمت والا
خدا تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے اور اگر اولاد میت صرف لڑکیاں ہی ہوں (یعنی دو یا) دو سے زیادہ تو کل ترکے میں انکا دو تہائی اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اس کا حصہ نصف۔ اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ بشرطیکہ میت کے اولاد ہو اور اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ اور اگر میت کے بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ۔ (اور یہ تقسیم ترکہ میت کی) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو اس نے کی ہو۔ یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو اس کے ذمے ہو عمل میں آئے گی) تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ دادوں اور بیٹوں، پوتوں میں سے فائدے کے لحاظ سے کون تم سے زیادہ قریب ہے۔ یہ حصے خدا کے مقرر کیے ہوئے ہیں اور خدا سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
آیت 11-12 وراثت کے احکام اور اصحاب وراثت :۔ یہ آیات اور اس سورت کی آخری آیت وراثت کی آیات ہیں اور وراثت کے احکام پر مشتمل ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے صحیح بخاری میں مروی ہے ” میراث کے مقرر حصے ان کے حق داروں کو دو جو بچ جائے وہ اس مرد کو دے دو جو میت کا سب سے زیادہ قریبی ہے “ ان آیات کو اس حدیث سے ملایا جائے تو یہ دونوں وراثت کے بڑے بڑے، بلکہ تمام احکام پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ ابھی تفصیل سے واضح ہوگا، سوائے نانی کی ورثات کے، کیونکہ اس کا ذکر ان میں نہیں ہے، مگر سنن میں حضرت مغیرہ بن شعبہ اور محمد بن مسلمہ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میت کی نانی کو وراثت کا چھٹا حصہ عطا کیا، اس پر علماء کا بھی اجماع ہے۔ وراثت میں میت کی اولاد کا حصہ :۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (یوصیکم اللہ فی اولاد کم) ” اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں وصیت (حکم) فرماتا ہے۔ “ یعنی اے والدین کے گروہ ! تمہاری اولاد تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں وصیت کی ہے تاکہ تم ان کے دینی اور دنیاوی مصالح کی دیکھ بھال کرو۔ تم ان کو تعلیم دو ادب سکھاؤ، انہیں برئایوں سے بچاؤ، انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور تقویٰ کے دائمی التزام کا حکم دو ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (یایھا الذین امنوا قوآ انفسکم واھلیکم ناراً وقودھا الناس والحجارۃ) (التحریم :6/66) پس اولاد کے بارے میں والدین کو وصیت کی گئی ہے۔ اس لئے چاہیں تو وہ اس وصیت پر عمل کریں تب ان کے لئے بہت زیادہ ثواب ہے اور چاہیں تو اس وصیت کو ضائع کردیں تب وہ سخت وعید اور عذاب کے مستحق ہیں۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ان کے والدین سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے کیونکہ اس نے والدین کو ان کی اولاد کے بارے میں وصیت کی درٓں حالیکہ والدین اپنی اولاد کے لئے کمال شفقت کے حامل ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اولاد کے لئے وراثت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (للذکر مثل حظ الانثین) یعنی اگر اصحاب الفروض نہ ہوں یا اصحاب الفروض کو دینے کے بعد ترکہ بچ جائے تو صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد کے لئے وراثت کا حکم یہ ہے کہ وہ لڑکیوں کا حصہ ایک لڑکے کے برابر ہے۔ اس پر تمام اہل علم کا اجماع ہے نیز اگر میت کی صلبی اولاد موجود ہو تو وراثت انہی میں تقسیم ہوگی۔ اگر میت کے بیٹے بیٹیاں ہیں تو پوتے پوتیوں کو وراثت نہیں ملے گی۔ یہ اس صورت میں ہے جبکہ میت کے بیٹے اور بیٹیاں دونوں موجود یہاں دو صورتیں ہیں۔ پہلی صورت کہ صرف بیٹے ہوں، اس کا ذکر آگے آئے گا۔ دوسری صورت کہ صرف بیٹیاں ہوں، اس کا ذکر ذیل میں ہے۔ بیٹیوں کے لئے وراثت کے احکام :۔ اگر صرف بیٹیاں وارث ہوں تو ان کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فان کن نسآء فوق اثنتین) یعنی اگر صلیبی بیٹیوں یا پوتیوں کی تعداد تین یا تین سے زیادہ فلھن ثلثا ماترک) ” تو ان سب کے لئے دو تہائی ترکہ ہے۔ “ (وان کانت واحدۃ فلھا النصف) ” اور اگر ایک بیٹی (یا پوتی) ہے تو اس کے لئے نصف ترکہ ہے “ اور اس پر علماء کا اجماع ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ اس پر اجماع کے بعد یہ اصول کہاں سے مستفاد ہوا کہ دو بیٹیوں کے لئے ترکہ میں سے دو تہائی حصہ ہے ؟۔۔۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اصول اللہ تعالیٰ کے ارشاد : (وان کانت واحدۃ فلھا النصف) سے ماخوذ ہے، کیونکہ اس کا مفہوم مخالف یہ ہے اگر بیٹی ایک سے زائد ہو تو وراثت کا حصہ بھی نصف سے متنقل ہو کر آگے بڑھے گا اور نصف کے بعد دو تہائی حصہ ہی ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (للذکر مثل حظ الانثیین) جب میت نے ایک بیٹا اور ایک بیٹی چھوڑی ہو تو ترکہ میں سے بیٹے کے لئے دو تہائی حصہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ اس کا یہ حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔ پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دو بیٹیوں کے لئے دو تہائی حصہ ہے۔ نیز اگر بیٹی اپنے بھائی کی معیت میں وراثت میں سے ایک تہائی حصہ لیتی ہے درآنحالیکہ بھائی بہن کی نسبت وراثت میں اس کے لئے زیادہ نقصان کا باعث ہے تو بہن کی معیت میں بیٹی کا وراثت سے حصہ لینا زیادہ اولیٰ ہے۔ نیز بہنوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فان کانتا اثنتین فلھما الثلثن مما ترک) (النساء :186/3) ” اگر دو بہنیں ہوں تو ان دونوں کے لئے ترکے میں سے دو تہائی حصہ ہے۔ “ دو بہنوں کے لئے دو تہائی ترکہ کے بارے میں یہ واضح نص ہے۔ جب دو بہنیں میت سے رشتہ میں بعد کے باوجود اس کے ترکہ میں سے دو تہائی حصہ لیتی ہیں تو دو بیٹیاں میت سے رشتہ میں قرب کی بنا پر دو تہائی ترکہ لینے کی زیادہ مستحق ہیں۔ نیز صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سعد کی دو بیٹیوں کو دو تہائی ترکہ عطا کیا۔ باقی رہا یہ اعتراض کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد (فوق اثنتین) ” اگر بیٹیاں دو سے زیادہ ہوں “ کا کیا فائدہ ؟ کہا جاتا ہے کہ اس کا فائدہ یہ ہے۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔۔۔۔ کہ یہ معلوم ہوجائے کہ زیادہ سے زیادہ حصہ دو تہائیاں ہی ہیں۔ وارث بیٹیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ وراثت کا حصہ دو تہائی سے زیادہ نہیں ہوگا۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جب میت کی صلب میں سے ایک بیٹی ہو اور ایک یا ایک سے زائد پوتیاں ہوں تو بیٹی کے لئے نصف ترکہ ہے اور اس دو تہائی میں سے جو اللہ تعالیٰ نے ایک سے زائد بیٹیوں یا پوتیوں کے لئے مقرر کیا ہے۔ چھٹا حصہ باقی بچ جاتا ہے تو یہ حصہ پوتی یا پوتیوں کو دیا جائے گا۔ اسی وجہ سے اس چھٹے حصے کو ” دو تہائی کا تکملہ “ کہا جاتا ہے اور اس کی مثال پوتی کی معیت میں وہ پوتیاں ہیں جو اس سے زیادہ نیچے ہیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اگر بیٹیاں یا پوتیاں پورے کا پورا دو تہائی حصہ لے لیں تو وہ پوتیاں جو زیادہ نیچے ہیں ان کا حصہ ساقط ہوجائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کے لئے صرف دو تہائی کا حصہ مقرر کیا ہے جو کہ پورا ہوچکا ہے۔ اگر ان کا حصہ ساقط نہ ہو تو اس سے لازم آتا ہے کہ ان کے لئے دو تہائی سے زیادہ حصہ مقرر ہو اور یہ بات نص کے خلاف ہے اور ان تمام احکام پر علماء کا اجماع ہے۔ وللہ الحمد اللہ تعالیٰ کا ارشاد (مما ترک) اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ میت ترکہ میں جو کچھ بھی چھوڑتی ہے خواہ وہ زمین کی صورت میں جائیداد ہو، گھر کا اثاثہ یا سونا چاندی وغیرہ حتی کہ دیت بھی جو اس کے مرنے کے بعد ہی واجب ہوتی ہے اور وہ قرضے جو میت کے ذمہ واجب الادا ہیں۔ ورثاء ان سب چیزوں کے وارث ہوں گے۔ ماں باپ کے لئے وراثت کے احکام :۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے لئے وراثت کے احکام بیان کرتے ہوئے فرمایا : (ولا بویہ) اس سے مراد ماں اور باپ دونوں ہیں (لکل واحد منھما السدس مما ترک ان کان لہ ولد) یعنی اگر میت کا ایک یا ایک سے زائد صلبی بیٹا یا بیٹی، پوتا یا پوتی موجود ہوں۔ تو پس ماں اولاد (بیٹے یا پوتے) معیت میں چھٹے حصے سے زیادہ نہیں لے گی۔ باپ کے لئے وراثت کے احکام :۔ اگر میت کی نرینہ اولاد موجود ہے تو ان کی معیت میں باپ چھٹے حصے سے زیادہ نہیں لے گا۔ اگر اولاد بیٹی یا بیٹیاں ہیں اور مقررہ حصے ادا کرنے کے بعد کچھ نہ بچے، جیسے ماں باپ اور دو بیٹیاں ہوں، تو باپ کا استحقاق عصبہ باقی نہیں رہے گا۔ اور اگر بیٹی یا بیٹیوں کے حصے کے بعد کچھ بچ جائے تو باپ چھٹا حصہ مقررہ حصے کے طور پر اور باقی مال عصبہ ہونے کے اعتبار سے لے گا۔ اس لئے کہ اصحاب الفروض کو ان کے حصے دینے کے بعد جو بچ جائے تو اس کا وہ مرد زیادہ مستحق ہوتا ہے جو میت کے زیادہ قریب ہو، اس لئے اس صورت میں باپ بھائی اور چچا وغیرہ سے زیادہ قریب ہے۔ (فان لم یکن لہ ولد و ورثہ ابوہ فلامہ الثلث) ” اور اگر اولاد نہ ہو اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لئے تیرسا حصہ ہے “ یعنی باقی ترکہ باپ کے لئے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مال کی اضافت بیک وقت ماں اور باپ کی طرف کی ہے پھر ماں کا حصہ مقرر کردیا، تو یہ بات اس امر کی دلیل ہے کہ باقی مال باپ کے لئے ہے۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ میت کی اولاد کی عدم موجودگی میں میت کا باپ اصحاب فروض میں شمار نہیں ہوتا بلکہ وہ عصبہ کی حیثیت سے تمام مال یا مقرر کردہ حصوں (فروض) سے بچے ہوئے باقی مال کا حق دار ہوگا۔ اگر ماں باپ کی موجودگی میں میت کا خاوند یا بیوی بھی موجود ہو۔ جن کو (عمریتین) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔۔۔ تو خاوند بیوی اپنا حصہ لیں گے، ماں باقی میں سے ایک تہائی لے گی اور جو بچ رہے گا اس کا مالک میت کا باپ ہوگا۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے (و ورثہ ابوہ فلامہ الثلث) یعنی جس مال کے وارث ماں باپ ہوں اس کا ایک تہائی حصہ ماں کے لئے ہے اور وہ ان دو صورتوں میں یعنی میت کے خاوند، ماں اور باپ کے وارث ہونے کی صورت میں چھٹا حصہ، اور میت کی بیوی، ماں اور باپ کے وارث ہونے کی صورت میں چوتھا حصہ ہے۔ پس یہ آیت اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ میت کی ماں، میت کی اولاد کی عدم موجودگی میں تمام مال کی ایک تہائی کی وارث ہے۔ جب تک یہ نہ کہا جائے کہ یہ مذکورہ دو صورتیں مستثنیٰ ہیں۔ اس کی مزید توضیح اس سے ہوتی ہے کہ خاوند یا بیوی جو حصہ لیتی ہے، وہ اس حصے کی طرح ہے جو قرض خواہ لیتے ہیں، اس لئے وہ سارے مال سے ہوگا اور باقی مال کے وارث ماں باپ ہوں گے۔ کیونکہ اگر ہم کل مال کا تیسرا حصہ ماں کو عطا کردیں تو اس سے میت کے خاوند کی معیت میں ماں کا حصہ باپ کے حصے سے بڑھ جائے گا یا میت کی بیوی کی معیت میں باپ کا حصہ ماں کی نسبت چھٹے حصے کے نصف سے زیادہ ہوجائے گا جس کی کوئی نظری نہیں، کیونکہ اصول یہ ہے کہ ماں، باپ کے مساوی حصہ لے گی یا باپ اس سے دگنا لے گا جو ماں کے حصہ میں آتا ہے۔ (فان کان لہ اخوۃ فلامہ السدس) ” اگر مرنے والے کے بھائی ہوں تو اس کی ماں کے لئے چھٹا حصہ ہے “ یعنی حقیقی بھائی ہوں، یا باپ کی طرف سے (علاتی بھائی) ہوں یا ماں کی طرف سے (اخیافی بھائی) ہوں خواہ وہ مرد ہو یا عورتیں۔۔۔ وارث بنتے ہوں یا وہ باپ یا دادا کی موجوگدی میں معجوب ہوں۔ مگر کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد (فان کان لہ اخوۃ) کا ظاہر غیر ورثاء کو شامل نہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ معجوب کو نصف حصہ نہیں پہنچتا۔۔۔ تب اس صورت میں میت کے وارث بننے والے بھائیوں کے سو اماں کو ایک تہائی حصہ سے کوئی بھائی معجوب نہیں کرسکتا۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ میت کے بھائیوں کی ماں کو ایک تہائی حصے سے معجوب کردینے میں حکمت یہ ہے کہ کہیں ان کے لئے مال میں کچھ بڑھ نہ جائے حالانکہ وہ معدوم ہے۔ مگر یہاں ایک شرط عائد کی گئی ہے کہ بھائی دو یا دو سے زائد ہوں۔ البتہ اس میں اشکال یہ ہے کہ یہاں (اخوۃ) جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں جمع مقصود نہیں بلکہ مجرد تعداد (متعدد ہونا) مقصود ہے اور یہ تعدودو کے عدد پر بھی صادق آتا ہے۔ کبھی جمع کا صیغہ تو بول لیا جاتا ہے، مگر اس سے مراد دو ہوتے ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور سلیمان کے بارے میں فرمایا : (وکنا للحکمھم شھدین) (الانبیاء :88/21) ” اور ہم ان کے فیصلے کو دیکھ رہے تھے۔ “ اللہ تعالیٰ نے اخیافی بھائیوں کے بارے میں فرمایا (ان کال رجل یورث کلۃ اوامراۃ ولہ اخ اداخت فلکل واحد منھما السدس فان کانوا اکثر من ذلک فھم شرکآء فی الثلث) (النساء :12/3) ” اگر ایسے مرد یا عورت کی وراثت ہو جو کلالہ ہو یعنی جس کی اولاد ہو نہ باپ، مگر اس کے بھائی یا بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے اگر ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے۔ “ پس یہاں بھی جمع کے لفظ کا اطلاق کیا جاتا ہے مگر بالا جماع اس سے مراد دو اور دو سے زائد افراد ہیں۔ اس صورت میں اگر میت اپنے پیچھے ماں، باپ اور کچھ بھائی وارث چھوڑتا ہے تو ماں کے لئے چھٹا حصہ ہے اور باقی ترکے کا وارث باپ ہے پس انہوں نے ماں کو ایک تہائی حصے سے معجوب کردیا اور اس کے ساتھ ساتھ باپ نے ان کو بھی معجوب کردیا۔ البتہ اس میں ایک دوسرا احتمال موجود ہے، جس کی رو سے ماں کے لئے ایک تہائی اور باقی ترکہ باپ کے لئے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (من بعد وصیۃ یوصی بھا او دین) یعنی میت کے ذمے اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگا، اس کی وجہ وصیت کی اہمیت کو واضح کرنا ہے (تاکہ ورثاء اس کو نظر انداز نہ کریں) علاوہ ازیں وصیت کا نفاذ ورثاء پر شاق گزرتا ہے (اور وہ اس پر عمل کرنے سے بالعموم گریز کرتے ہیں) وگرنہ قرض کی ادائیگی، وصیت پر اصل مال میں سے ہوگی۔ جہاں تک وصیت کا معاملہ ہے تو وہ صرف ایک تہائی مال یا اس سے کم ہیں، نیز صرف غیر وارث اجنبیوں کے لئے جائز ہے اس کے علاوہ اگر وصیت کی گئی ہے تو وہ نافذ نہیں ہوگی البتہ اگر ورثاء اجازت دے دیں تو نافذ ہوسکتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے (ابآؤکم وابنآؤکم لاتدرون ایھم اقرب لکم نفعاً ” تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے، تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون نفع کے اعتبار سے تمہارے زیادہ قریب ہے “ یعنی اگر وراثت کے حصے تمہاری عقل اور تمہارے اختیار کے مطابق بنائے جاتے تو اس قدر نقصان پہنچتا جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کیونکہ عقل ناقص ہے اور ہر زمان و مکان کے مطابق جو چیز زیادہ اچھی اور زیادہ لائق ہے اس کی معرفت حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ پس انسان نہیں جانتا کہ اس کی اولاد یا والدین میں سے دینی اور دنیاوی مقاصد کے حصول میں کون اس کے لئے زیادہ فائدہ مند اور اس کے زیادہ قریب ہے۔ (فریضۃ من اللہ ان اللہ کان علیماً حکیماً ” اللہ کی طرف سے مقرر کیا ہوا ہے بیشک اللہ پورے علم اور کامل حکمتوں والا ہے “ یعنی وراثت کے ان حصوں کو اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اس نے جو شریعت بنائی ہے اسے محکم کیا ہے اور اس نے جو چیز مقدر کی ہے اسے بہترین اندازے کے ساتھ مقدر کیا ہے۔ عقل ان جیسے احکام وضع کرنے سے قاصر ہے جو ہرحال اور ہر زمان و مکان کے موافق اور نفاذ کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ شوہر اور بیویوں کے لئے وراثت کے احکام :۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (ولکم) یعنی اے شوہرو ! (نصف ماترک ازواجکم ان لم یکن لھن ولد فان کان لھن ولد فلکم الربع مما ترکن من بعد وصیۃ یوصین بھآء او دین ولھن الربع مما ترکتم ان لم یکن لکم ولدفان کان لکم ولد فلھن التمن مما ترکتم من بعد وصیۃ توصون بھآء او دین) ” اور جو کچھ تمہاری بیویاں (ترکے میں) چھوڑ جائیں اس میں سے نصف کے تم حق دار ہو بشرطیکہ ان کی اولاد نہ ہو۔ اگر ان کی اولاد ہے تو تمہیں جو کچھ وہ چھوڑ جائیں اس کا چوتھائی ملے گا (یہ تقسیم) مرنے والی کی وصیت کی تعمیل اور اس کے قرضے کی (ادائیگی) کے بعد (عمل میں لائی جائے) اور ان کے لئے جو کچھ تم چھوڑ جاؤ اس کا چوتھائی حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری اولاد نہ ہو اور اگر تمہاری اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکے کا آٹھواں حصہ ہوگا (یہ تقسیم) تمہاری وصیت کی تکمیل یا قرضے ( کی ادائیگی) کے بعد (عمل میں لائی جائے) “ اولاد کے مسمی کے زمرے میں، جس کے وجود اور عدم وجود کو میاں بیوی کی وراثت میں شرط بنایا گیا ہے، صلبی اولاد یا بیٹے کی اولاد لڑکے یا لڑکیاں خواہ ایک ہو یا متعدد جو اس شوہر یا بیوی سے ہوں یا کسی اور سے، شمار ہوتی ہیں اس میں بیٹیوں کی اولاد شامل نہیں اور اس پر اجماع ہے۔ (کلالہ) کا معنی اور اس کے احکام :۔ (وان کان رجل یورث کلۃ اوامراۃ ولہ اخ او اخت) ” اور اگر کوئی مرد ہو (جو ترکہ چھوڑ جائے) اور اس کا نہ باپ ہو نہ بیٹا اور بھائی یا بہن ہو “ اس سے مراد خیافی (ماں شریک) بہن بھائی ہیں جیسا کہ بعض قرأت میں بھی وارد ہے اور فقہاء کا اجماع ہے کہ یہاں بہن بھائی سے مراد اخیافی بہن بھائی ہیں۔ اگر میت کلالہ ہے یعنی میت کا باپ ہے نہ بیٹا، یعنی باپ ہے نہ دادا، بیٹا ہے نہ پوتا، یٹی ہے نہ پوتی۔۔۔ خواہ نیچے تک چلے جائیں۔۔۔ ایسی میت کو کلالہ کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق نے اس کی تفسیر بیان کی ہے اور اسی مفہوم پر اجماع واقع ہوگیا۔ وللہ الحمد (فلکل واحد منھما) یعنی بھائی اور بہن دونوں میں سے ہر ایک کے لئے (السدس) چھٹا حصہ ہے (فان کانوا اکثر من ذلک) یعنی اگر وہ ایک سے زائد ہوں (فھم شرکآء فی الثلث) یعنی ایک تہائی میں سب شریک ہیں اور ایک تہائی سے زیادہ نہیں ملے گا خواہ ان کی تعداد دو سے بڑھ جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد (فھم شرکآء فی الثلث) اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ اس میں مرد اور عورتیں سب برابر ہیں کیونکہ لفظ ” شریک “ مساوات کا تقاضا کرتا ہے۔ (یعنی اس صورت میں مرد کو عورت سے دگنا حصہ نہیں، بلکہ برابر کا حصہ ملے گا) لفظ ” کلالہ “ دلالت کرتا ہے کہ فروع نیچے تک اور اصول مرد اوپر تک خواہ کتنی ہی دور کیوں نہ جائیں، وہ ماں کی اولاد کو ساقط کردیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اخیافی بہن بھائیوں کو صرف کلالہ کی صورت میں وارث بنایا ہے اور اگر وہ کلالہ کی صورت میں وارث نہیں بنتے تو وہ کسی اور صورت میں میت کے وارث نہیں بن سکتے۔ اس پر اہل علم کا اتفاق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد (فھم شرکآء فی الثلث) دلالت کرتا ہے کہ ” مسئلہ حماریہ “ کے مطابق حقیقی بھائی ساقط ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر میت کا شوہر، ماں اور حقیقی بھائی بھی ہوں تو شہر کے لئے نصف ترکہ، ماں کے لئے چھٹا حصہ اور اخیافی بھائیوں کے لئے ایک تہائی حصہ ہے اور حقیقی بھائی ساقط ہوجائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک تہائی ترکہ کو اخیافی بھائیوں کی طرف مضاف کیا ہے اگر اس ترکہ میں حقیقی بھائیوں کو شریک کرلیا جائے تو یہ اس چیز کو جمع کرنا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تفریق کی ہے۔ نیز اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اخیافی بھائی اصحاب فروض ہیں اور حقیقی بھائی عصبہ ہیں۔ چناچہ رسول اللہ نے فرمایا ” میراث کے مقررہ حصے ان کے حق داروں کو دو جو بچ جائے وہ اس مرد کو دے دو جو میت کا سب سے زیادہ قریبی ہے۔ (1) اور اصحاب فروض وہ لوگ ہیں جن کا حصہ اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیا ہے۔ زیر بحث کلالہ کے مسئلہ میں اصحاب فروض کو دینے کے بعد کچھ باقی نہیں بچتا اس لئے حقیقی بھائی ساقط ہوجائیں گے اور یہی صحیح موقف ہے۔ رہی حقیقی بھائیوں اور بہنوں کی وراثت، یا باپ کی طرف سے بھائیوں اور بہنوں کی وراثت، تو یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد (یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکلۃ) (النساء 186/3) میں مذکور ہے۔ پس ایک حقیقی یا باپ کی طرف سے بہن کے لئے نصف ترکہ ہے۔ اگر دو ہوں تو ان کے لئے دو تہائی ترکہ ہے۔ اگر کلالہ کی ایک حقیقی بہن، ایک یا زائد باپ کی طرف سے بہنیں ہوں تو ترکہ کا نصف حصہ حقیقی بہن کو ملے گا اور دو تہائی میں سے باقی جو کہ چھٹا حصہ بنتا ہے دو تہائی کی تکمیل کے لئے باپ کی طرف سے بہن یا بہنوں کو ملے گا۔ اگر حقیقی بہنیں دو تہائی حصہ لے لیں تو باپ کی طرف سے بہنیں ساقط ہوجائیں گی جیسا کہ بیٹیوں اور پوتیوں کے بارے میں گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔ اگر بھائی اور بہنیں وارث ہوں تو ایک بھائی کو دو بہنوں کے مساوی حصہ ملے گا۔ قاتل اور مختلف دین رکھنے والے کے لئے وراثت :۔ اگر یہ کہا جائے کہ آیا قرآن کریم سے قاتل، غلام، غیر مسلم، جزوی غلام، مخنث، باپ کی طرف سے بھائیوں کی معیت میں دادا، عول، رد، ذوالارحام، بقیہ عصبہ، بیٹیوں کی معیت میں باپ شریک بہنوں یا پوتیوں کے وراثت مستفاد ہوتی ہے یا نہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں اس بارے میں بعض دقیق اشارے اور تنبیہات موجود ہیں، گہرے غور و فکر کے بغیر ان اشارات سمجھنا مشکل ہے۔ رہا قاتل اور مخلاف دین یعنی غیر مسلم، تو یہ بات معروف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مال کو ورثاء میں ان کے میت سے قرب اور دینی اور دنیاوی فوائد کے اعتبار سے تقسیم کرنے کی جو حکمت بیان کی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وارث نہیں بن سکتے۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس حکمت بالغہ کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے : (لاتدرون ایھم اقرب لکم نفعا) (النساء :11/3) ” تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون نفع کے اعتبار سے تمہارے زیادہ قریب ہے۔ “ یہ بات معلوم اور واضح ہے کہ قاتل نے اپنے مورث کو سب سے بڑا نقصان پہنچایا ہے لہٰذا وہ امر جو اس کے لئے وارث کا موجب ہے، قتل کے ضرر کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ قتل اس نفع کی ضد ہے جس پر وراثت مرتب ہوتی ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ قتل سب سے بڑا مانع ہے جو میراث کے حصول سے روکتا ہے اور قطع رحمی کا باعث بنتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (واولوالارحام بعضھم اولی ببعض فی کتب اللہ) (الانفال :80/8) ” اور رشتہ دار اللہ کے حکم کے مطابق ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں “ نیز ایک شرعی قاعدہ مشہور ہے کہ ” جو کوئی وقت سے پہلے کوئی چیز حاصل کرنے میں جلدی کرتا ہے اسے اس چیز سے محرومی کی سزا دی جاتی ہے۔ “ مندرجہ بالا توضیح سے واضح ہوتا ہے کہ اگر وارث، مورث کے دین سے مختلف دین رکھتا ہے تو وہ وراثت سے محروم ہے۔ وراثت کا موجب، جو کہ نسب کا اتصال ہے اور وراثت کا مانع جو کہ اختلاف دین ہے اور اختلاف دین ہر لحاظ سے وارث کو مورث سے علیحدہ کردیتا ہے۔ پس موجب اور مانع میں تعارض ہے۔ مانع زیادہ قوی ہے اور موجب وراثت کو روک دیتا ہے۔ بنا بریں مانع کے ہوتے ہوئے موجب پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ اس اصول کی وضاحت اس امر سے ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے حقوق کو کفار رشتہ داروں کے حقوق پر اولیت دی ہے۔ اس لئے جب مسلمان وفات پا جاتا ہے تو اس کا مال اس شخص کی طرف منتقل ہوگا جو اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد (واولوا الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتب اللہ) تو اسی صورت میں صادق آئے گا جب وارث اور مورث کا دین ایک ہو۔ وارث اور مورث کے دین میں تباین اور اختلاف کی صورت میں دینی اخوت مجرد نسبی اخوت پر مقدم ہے۔ علامہ ابن القیم جلاء الافھام میں رقمطراز ہیں ” اس لفظ کے معنی پر مواریث کی آیت میں غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیان توارث کو ” عورت “ کی بجائے ” زوجہ “ کے لفظ کے ساتھ معلق کیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں آیا ہے (ولکم نصف ماترک ازواجکم) اس میں اس بات کی تعلیم ہے کہ یہ توارث اس زوجیت کی بنا پر واقع ہوا ہے جو کامل مشابہت اور تناسب کا تقاضا کرتی ہے۔ مومن اور کافر کے مابین کوئی مشابہت اور کوئی تناسب نہیں ہوتا اس لئے ان کے مابین توارث واقع نہیں ہوسکتا قرآن کریم کے مفردات اور مرکبات کے اسرار نہاں اس سے بہت بلند ہیں کہ عقل مندوں کی عقل اس کا احاطہ کرسکے۔۔۔ “ غلاموں کے لئے وراثت کے احکام :۔ جہاں تک غلام کا معاملہ ہے تو نہ وہ خود کسی وارث بن سکتا ہے اور نہ کوئی اس کا وارث بن سکتا ہے۔۔۔ رہا یہ معاملہ کہ کوئی اس کا وارث نہیں بن سکتا تو یہ بالکل واضح ہے کیونکہ اس کا کوئی مال ہی نہیں جس کا کوئی وارث ٹھہرے، بلکہ اس کے برعکس اس کا تمام مال اس کے آقا کی ملکیت ہے رہی یہ بات کہ وہ وارث بھی نہیں ہوسکتا، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا، اگر اس کے ہاتھ میں کوئی چیز آتی بھی ہے تو وہ اس کے مالک کی ملکیت ہوتی ہے۔ پس وہ میت کے لئے اجنبی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اس قسم کے ارشادات : (للذکر مثل حظ الانثیین) (ولکم نصف ماترک ازواجکم) اور (فلکل واحد منھما السدس) وغیرہ اس کے لئے ہے جو ملکیت کا اثبات کرسکتا ہو اور غلام کے لئے چونکہ ملکیت کا اثبات ممکن نہیں، اس لئے معلوم ہوا کہ وہ میراث کا حق دار نہیں۔ رہا وہ شخص جو جزوی طور پر آزاد اور جزوی طور پر غلام ہو تو اس کے احکام میں بھی تبعیض ہوگی۔ پس اس میں جو آزادی کا حصہ ہے، اس کی وجہ سے اللہ نے وراثت کا جو حق مترتب کیا ہے، اس کا وہ مستحق ہوگا، کیونکہ آزادی کی وجہ سے وہ مالک بننے کے قابل ہے اور اس میں جو غلامی کا حصہ ہے، اس کی وجہ سے وہ اس کے قابل نہیں۔ تب اس صورت میں یہ جزوی طور پر آزاد ہے۔ وراثت میں حصہ لیگا اور خود اس کی میراث بھی اس کے ورثاء میں تقسیم ہوگی اور اپنی آزادی کی مقدار کے مطابق دوسروں کو وراثت سے معجوب کرے گا اور جب غلام، قابل تعریف اور قابل مذمت، ثواب کا حق دار اور عذاب کا حق دار، ان موجبات کی مقدار کے مطابق ہوسکتا ہے، جو اسے ان امور کا مستحق بناتی ہیں، تو یہ معاملہ بھی اسی طرح ہے۔ مخنث کے لئے وراثت کے احکام :۔ مخنث کا معاملہ تین امور سے خالی نہیں ہوتا۔ مخنث کی ذکوریت واضح ہوتی ہے (یعنی اس میں مرد کی علامتیں پائی جاتی ہیں) یا اس کی انوثیت واضح ہوتی ہے۔ (اس میں عورت کی علامتیں غالب ہوتی ہیں) یا اس کا مذکر ہونا یا مونث ہونا واضح نہیں ہوتا تب اس کو ” مشکل “ کہتے ہیں۔ اگر مخنث کا معاملہ واضح ہے تو اس کی وراثت کا مسئلہ بھی واضح ہے۔ چناچہ اگر اس میں مرد کی علامتیں غالب ہیں تو اس پر اس نص کا اطلاق ہوگا جو مردوں کے بارے میں وارد ہوئی ہے اور اگر اس میں عورت کی علامتیں غالب ہیں تو اس پر عورتوں کے احکام کا اطلاق ہوگا۔ اگر وہ مشکل ہے تو اگر وہ مرد اور عورت ہیں جن کا حصہ وراثت مختلف نہیں۔ (بلکہ یکساں ہے) جیسے اخیافی بہن بھائیوں کا معاملہ ہے تو اس میں معاملہ بالکل واضح ہے۔ اور اگر اس کو مرد مقدر کرتے ہوئے یا عورت مقدر کرتے ہوئے اس کا حصہ وراثت مختلف ہو اور ہمارے پاس کے بارے میں تیقن کا کوئی ذریعہ نہ ہو تو ہم اسے وہ حصہ نہ دیں گے جو دونوں صورتوں میں سب سے زیادہ بنتا ہے کیونکہ اس میں ان لوگوں پر ظلم کا احتمال ہے جو اس کی معیت میں وراثت کے حق دار ہیں اور نہ ہم اسے کم ترین حصہ دیں گے کیونکہ اس صورت میں خود اس پر ظلم کا احتمال ہے۔ پس ان کے درمیان اعتدال کی راہ اختیار کرنا واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (اعدلوا ھو اقرب للتقوی) (المائدہ :8/5) ” عدل کیا کرو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ “ اس قسم کی صورتحال میں ہمارے پاس اس سے زیادہ کوئی عدل کا راستہ نہیں جس کا گزشتہ سطور میں ہم ذکر کرچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا) (البقرہ :286/2) ” اللہ کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی طاقت کے مطابق “ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فاتقوا اللہ ما استطعتم) (التغابن :16/63) ” پس جہاں تک ہوسکے اللہ سے ڈرو “ دادا کے لئے وراثت کے احکام :۔ رہا حقیقی بھائیوں یا باپ شریک (علاتی) بھائیوں کی موجودگی میں میت کے دادا کے لئے وراثت کا مسئلہ کہ آیا مذکورہ بھائی دادا کی معیت میں وراثت میں سے حصہ لیں گے یا نہیں۔۔۔ تو اللہ تعالیٰ کی کتاب حضرت ابوبکر صدق کے اس فتویٰ کی تائید کرتی ہے کہ دادا بھائیوں کو معجوب کر دے گا، چاہے وہ حقیقی بھائی ہوں یا علاتی (باپ شریک) یا اخیافی (ماں شریک) ہوں جیسے باپ ان سب کو معجوب کردیتا ہے۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ قرآن مجید میں ایک سے زائد مقامات پر دادا کو باپ کہا گیا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اذ حضر یعقوب الموت اذ قال لبنیہ ماتعبدون من بعدی قالوا نعبد الھک والہ ابآئک ابراھم واسمعیل واسحق) (البقرہ :133/2) ” جب یعقوب وفات پانے لگے تو انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے ؟ انہوں نے جواب دیا تیرے معبود اور تیرے آباء ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی “ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کا قول نقل فرمایا : (واتبعت ملۃ آباءی ابراہیم واسحق ویعقوب) (یوسف :38/12) ” میں نے اپنے آباء ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کی ملت کی پیروی کی ہے۔ “ پس اللہ تعالیٰ نے دادا اور باپ کے دادا کو ” باپ “ کے نام سے موسوم کیا ہے یہ چیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ دادا اپ کے مقام پر ہوتا ہے اور وراثت میں اس کا وہی حصہ ہے جو باپ کا حصہ ہے جس کو باپ معجوب کرتا ہے اس کو دادا بھی معجوب کرے گا (یعنی باپ کی عدم موجودگی میں) اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ میت کے باپ کی عدم موجودگی میں میت کی میراث میں میت کی اولاد وغیرہ کی معیت میں اس کے بھائیوں، چچاؤں کے بیٹوں کے ہوتے ہوئے دادا کا وہی حکم ہے جو باپ کا حکم ہے۔۔۔ اس لئے مناسب یہی ہے کہ اخیافی بھائیوں کے علاوہ دوسرے بھائیوں کو معجوب کرنے میں بھی دادا کا وہی حکم ہو جو باپ کا حکم ہے اور جب بیٹے کا بیٹا صلبی بیٹے کی مانند ہے تو دادا باپ کے مقام پر کیوں نہیں ہوس کتا اور جب باپ کا دادا میت کے بھتیجے کی موجودگی میں، اہل علم کے اجماع کے مطابق، بھتیجے کو معجوب کر دے گا۔ تو پھر میت کا دادا میت کے بھائی کو کیوں معجوب نہیں کرسکتا ؟ لہٰذا جو داد کی معیت میں بھائیوں کو وارث قرار دیتا ہے اس کے پاس کوئی نص ہے نہ اشارہ نہ تنبیہ اور نہ قیاص صحیح۔ عول اور اس کے احکام :۔ عول کے مسائل کے احکام قرآن مجید سے مستفاد ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب مواریث کے لئے حصے مقرر کردیئے ہیں اور ان کی دو حالتیں ہوتی ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو معجوب کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔ اگر وہ ایک دوسرے کو معجوب کرتے ہیں تو وراثت میں معجوب ساقط ہوجاتا ہے اور وہ کسی چیز کا سمتحق نہیں رہتا۔ اگر وہ ایک دوسرے کو معجوب نہیں کرتے تو وہ مندرجہ ذیل دو صورتوں سے خالی نہیں۔ یا تو وہ ترکہ کے تمام حصے کے وارث نہیں بنتے۔ (یعنی ورثاء کو ان کے شرعی حصے دینے کے بعد بھی ترکہ بچ جاتا ہے) یا وہ ترکہ کے تمام حصوں کے وارث اس طرح بنتے ہیں کہ یہ مقرر کردہ حصے مجموعی طور پر نہ تو ترکہ سے کم ہوتے ہیں اور نہ زیادہ یا مقرر کردہ حصے ترکہ سے بڑھ جاتے ہیں۔ پہلی دو صورتوں میں ہر وارث اپنا پورا حصہ حاصل کرتا ہے مگر آخری صورت میں جب حصے ترکہ سے بڑھ جائیں تو یہ بھی دو حالتوں سے خالی نہیں۔ یا تو ہم بعض ورثاء کا وہ حصہ کم کردیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقرر کیا ہے اور نہ میں سے باقی ورثاء کا حصہ پورا پورا عطا کرتے ہیں۔ یہ ترجیح بلا دلیل ہے ان میں سے کوئی ایک نقصان اٹھانے کا کسی دوسرے سے زیادہ مستحق نہیں۔ پس دوسری صورت کا یوں تعین ہوتا ہے کہ ہم امکانی حد تک ہر وارث کو اس کا پورا حصہ ادا کرتے ہیں اور موجود ترکہ کو ان کے درمیان ان کے حصوں کے مطابق تقسیم کردیتے ہیں جیسے مقروض کے اس مال کو قرض خواہوں کے مابین تقسیم کیا جاتا ہے جو قرض خواہوں کے مطالبے سے کم ہوتا ہے۔ اب اس مال کو عول کے اصول کو استعمال کئے بغیر تقسیم کرنے کا کوئی راستہ نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم فرائض (وراثت) میں عول کا مسئلہ بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرما دیا ہے۔ رو اور اس کے احکام :۔ عول کے اس طریقے کے بالکل برعکس روکا اصول معلوم ہوا، اس لئے کہ جب اصحاب فروض میں ترکہ کو تقسیم کرنے کے بعد ترکہ میں سے کچھ بچ جائے اور اس کا کوئی حق دار نہ ہو اور قریب یا دور میت کا عصہ بھی نہ ہو۔ اگر یہ بچا ہوا ترکہ کسی ایک کو عطا کردیں تو یہ بلا دلیل ترجیح ہے اور یہ بچا ہوا کسی ایسے شخص کو دے دینا جو میت کا قریبی نہیں ہے تو یہ گناہ، کج روی اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مخالفت ہے (واولوا الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتب اللہ) (الانفال :80/8) ” اور رشتہ دار اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔ “ پس یہ بات متحقق ہوگئی کہ بچا ہوا ترکہ اصحاب فروض کو ان کے حصے کے مطابق واپس لوٹا دینا چاہیے۔ زوجین کی طرف رد کے احکام :۔ ان فقہاء کے نزدیک جو بچے ہوئے ترکے کو زوجین کی طرف لوٹانے کے قائل نہیں، ان کے مسلک کے مطابق زوجین اپنے مقررہ حصے سے زیادہ لینے کے مستحق نہیں، کیونکہ ان کے درمیان نسبی قرابت نہیں ہوتی۔ مگر صحیح مسلک یہ ہے کہ رو کے ضمن میں زوجین کا حکم بھی وہی ہے جو باقی ورثاء کا ہے۔ مذکورہ بالا دلیل سب کو اسی طرح شامل ہے جس طرح اصول عول میں سب شامل ہیں۔ میراث میں ذوی الارحام کا حکم :۔ اس کے ذریعے سے ذوی الارحام کی وراثت بھی معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے کہ اگر میت کے پیچھے کوئی ایسا شخص نہ بچے جو اصحاب فروض (جن کے حصے اللہ کی طرف سے مقرر ہیں) یا عصبہ ( میت کا قریب ترین رشتے دار) میں شمار ہوتا ہو تو میراث کا معاملہ دو امور کے مابین گھومتا ہے۔ ترکہ کا مال بیت المال میں جمع ہو جس سے اجنبی لوگ استفادہ کریں یا ترکہ میت کے ان اقارب کی طرف لوٹ جائے جو ورثاء کے متفق علیہ قریبی ہیں۔ ان دونوں میں سے دوسرا مسلک متعین ہے اور اس کی صحت پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے (واولوالارحام بعضھم اولی ببعض فی کتب اللہ) (الانفال :80/8) اس لئے میراث کو اولوالارحام کے علاوہ کسی اور طرف پھیرنا اس شخص کو محروم کرنا ہے جو دوسروں سے زیادہ اس کا مستحق ہے۔ پس ذوی الارحام کو وارث بنانا متعین ہوگیا اور جب ان کو وارث بنانا متعین ہوگیا تو یہ معلوم ہوگیا کہ کتاب اللہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے حصے مقرر نہیں فرمائے۔ نیز یہ کہ ان کے اور میت کے درمیان کچھ واسطے ہیں جن کے سبب سے وہ میت کے رشتہ دار بنے پس ان کو اسی مقام پر رکھا جائے گا جس کے ذریعے سے وہ میت کے قریبی بنتے ہیں۔ واللہ اعلم میت کا عصبہ کون ہے ؟ اور میراث میں اس کا حکم :۔ رہی باقی عصبہ کی وراثت جیسے بیٹے، بھائی، بھتیجے، چچا اور چچاؤں کے بیٹے، تو ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (الحقوا الفرائض باھلھا، فمابقی فلاولی، رجل ذکر) (1) ” وراثت کے مقررہ حصے ان کے حق داروں کو دے دو جو بچ جائے اس مرد کو دے دو جو میت کا سب سے زیادہ قریبی ہے۔ “ اور فرمایا : (ولکل جعلنا موالی مما ترک الوالدن والاقربون) (النساء :33/3) ” جو مال ماں اور قریبی رشتہ دار چھوڑ کر مرجاتے ہیں ہم نے ہر ایک کے حق دار مقرر کردیئے ہیں۔ “ جب ہم اصحاب فروض کو ان کے مقررہ حصے عطا کردیں اور کچھ باقی نہ بچے تو عصبہ کسی چیز کا حق دار نہیں ہوتا اور اگر ترکہ میں سے کچھ باقی بچ جائے تو عصبہ میں سے جو سب سے زیادہ مستحق ہیں وہ اپنی جہات اور درجات کے مطابق حصہ لیں گے۔ عصبہ کی جہات :۔ عصبہ کی پانچ جہات ہیں۔ بیٹے، باپ، بھائی اور بھتیجے، چچا اور چچاؤں کے بیٹے، پھر ولاء، ان میں سے اس کو مقدم رکھا جائے گا جو جہت کے اعتبار سے سب سے قریب ہے۔ اگر تمام ایک ہی جہت میں واقع ہوں تو ان میں وہ زیادہ مستحق ہے جو منزلت کے اعتبار سے سب سے قریب ہے۔ اگر تمام ایک ہی جہت میں واقع ہوں تو ان میں وہ زیادہ مستحق ہے جو منزلت کے اعتبار سے زیادہ قریب ہے۔ اگر منزلت کے اعتبار سے سب برابر ہوں تو جو سب سے زیادہ قوی ہے وہ زیادہ مستحق ہے اور وہ حقیقی بھائی ہے۔ اگر ہر پہلو سے برابر ہوں تو سب عصبہ میں شریک ہوں گے، واللہ اعلم۔ رہا باپ شریک بہنوں کا بیٹیوں کی معیت یا بھتیجوں کی معیت میں عصبہ ہونا اور ان کا ترکہ میں سے اپنے حصوں سے زائد لینا۔۔۔ تو قرآن مجید میں ایسی کوئی چیز نہیں جو یہ دلالت کرتی ہو کہ بہنیں بیٹیوں کی وجہ سے ساقط ہوجائیں گی۔ جب صورتحال یہ ہوا اور بیٹیوں کے اپنا حصہ لینے کے بعد کچھ بچ جائے تو وہ بہنوں کو دیا جائے گا اور ان کو چھوڑ کر اس عصبہ کی طرف توجہ نہیں کی جائے گی جو ان سے بعید تر ہے۔ مثلاً بھتیجا، چچا اور وہ لوگ جو ان سے بھی بعید تر ہیں واللہ اعلم۔
Top