Tafseer-e-Saadi - An-Nisaa : 133
اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ اَیُّهَا النَّاسُ وَ یَاْتِ بِاٰخَرِیْنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى ذٰلِكَ قَدِیْرًا
اِنْ يَّشَاْ : اگر وہ چاہے يُذْهِبْكُمْ : تمہیں لے جائے اَيُّھَا النَّاسُ : اے لوگو وَيَاْتِ : اور لے آئے بِاٰخَرِيْنَ : دوسروں کو وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي ذٰلِكَ : اس پر قَدِيْرًا : قادر
لوگو ! اگر وہ چاہے تو تم کو فنا کر دے اور (تمہاری جگہ) اور لوگوں کو پیدا کر دے اور خدا اس بات پر قادر ہے
آیت 133 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے وسیع اور عظیم اقتدار کے عموم کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جو اس امر کو مستلزم ہے کہ وہ شرعاً اور قدراً مختلف طریقوں سے کائنات کی تدبیر کرے اور گوناگوں تصرفات کے ذریعے سے اس کا بندوبست کرے۔ اس کا تصرف شرعی یہ ہے کہ اس نے اولین و آخرین، اور کتب سابقہ اور بعد میں نازل ہونے والی کتابوں کے ماننے والوں کو تقویٰ کی وصیت کی ہے جو امرو نہی، تشریح احکام اور اس شخص کے لئے ثواب کو متضمن ہے جو اس وصیت پر عمل کرتا ہے اور اس شخص کے لئے درد ناک عذاب کی وعید کو متضمن ہے جو اس وصیت کو ضائع کرتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وان تکفروا) ” اور اگر کفر کرو گے۔ “ یعنی اگر تم تقویٰ ترک کردو اور کفر اختیار کرلو اور ایسی چیزوں کو اللہ کا شریک ٹھہرا لو جس پر اللہ تعالیٰ نے کوئی ذلیل نازل نہیں کی تو اس طرح تم صرف اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچاؤ گے، اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور اللہ تعالیٰ کے اقتدار میں ذرہ بھر کمی نہیں کرسکتے۔ اس کے اور بھی بندے ہیں جو تم سے بہتر اور تم سے زیادہ اطاعت گزار اور اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد فرمایا : (وان تکفروا فان للہ ما فی السموت وما فی الارض وکان اللہ غنیاً حمیداً ) اللہ تبارک و تعالیٰ کامل جودو کرم اور احسان کا مالک ہے جو کچھ اس کی رحمت کے خزانوں سے صادر ہوتا ہے وہ خرچ کرنے سے کم نہیں ہوتا۔ یہ خزانے اگر دن رات خرچ ہوتے رہیں تب بھی ختم نہیں ہوں گے۔ اگر زمین و آسمان کے رہنے والے اول سے لے کر آخر تک تمام لوگ اپنی اپنی آرزؤں کے مطابق اللہ تعالیٰ سے سوال کریں تو اس کی ملکیت میں ذرہ بھر کمی نہ ہوگی، کیونکہ وہ جواد ہے، ہر چیز کو وجود بخشنے والا اور بزرگی کا مالک ہے۔ وہ اپنے کلام سے عطا کرتا ہے اور اپنے کلام سے عذاب دیتا ہے۔ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ” ہوجا “ اور وہ ہوجاتی ہے۔ اس کی تمام تر بےنیازی یہ ہے کہ وہ کامل اوصاف کا مالک ہے کیونکہ اگر کسی بھی لحاظ سے اس میں کوئی نقص ہوتا تو وہ اس کمال کے لئے محتاج ہوتا، بلکہ اس کے لئے کمال کی ہر صفت ہے اور انہی میں سے ایک صفت کمال ہے اور یہ اس کی بےنیازی ہی ہے کہ اس کی کوئی بیوی اور کوئی اولاد نہیں، اقتدار میں اس کا کوئی شریک ہے نہ کوئی مددگار اور اس کے اپنے اقتدار کی تدبیر میں اس کا کسی قسم کا کوئی معاون نہیں۔ یہ اس کا کامل غنا اور اس کی بےنیازی ہے کہ عالم علوی اور عالم سقلی اپنے تمام احوال اور تمام معاملات میں اسی کے محتاج ہیں اور اپنی چھوٹی بڑی حاجتوں میں اسی سے سوال کرتے ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے مطلوب اور سوال کو پورا کرتا ہے، ان کو غنی اور مال دار کردیتا ہے ان کو اپنے لطف و کرم سے نوازتا ہے اور انہیں راہ ہدایت دکھاتا ہے۔ رہا اسم گرامی (حمید) تو یہ نام اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں شمار ہوتا ہے اور اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ہر قسم کی حمد وثناء محبت اور اکرام کا مستحق ہے۔ اس لئے وہ صفات حمد سے متصف ہے جو کہ جمال و جلال کی صفات ہیں اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو بیشمار نعمتوں سے نوازا ہے اس لئے وہ ہرحال میں ” محمود “ ہے۔ ان دو اسمائے گرامی یعنی (الغنی، الحمید) کا یکجا ہونا کتنا خوبصورت ہے۔ یقیناً وہ بےنیاز اور قابل تعریف ہے، اسے کمال بےنیازی بھی حاصل ہے اور کمال حمد بھی اور ان دونوں کے حسن امتزاج کا کمال بھی۔ پھر اس نے مکرر فرمایا ہے کہ زمین اور آسمانوں میں اقتدار اسی کا ہے اور ہر چیز کو کفایت کرنے والا وہی ہے، یعنی وہ علم رکھنے والا اور اپنی حکمت کے مطابق تمام اشیاء کی تدبیر کرتا ہے اور یہی کامل کفایت اور وکالت و ہے کیونکہ وکالت اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ جس چیز کا وکیل ہے اسے اس کا پورا پورا علم ہو۔ پھر اس کو نافذ کرنے اور تدبیر کرنے میں پوری قوت اور قدرت رکھتا ہو اور یہ تدبیر حکمت اور مصلحت پر مبنی ہو۔ اگر ان امور میں کوئی کمی ہوگی تو وہ وکیل میں نقص کی وجہ سے ہوگی اور اللہ تعالیٰ ہر نقص سے منزہ ہے۔
Top