Tafseer-e-Saadi - An-Nisaa : 152
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ لَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ اُولٰٓئِكَ سَوْفَ یُؤْتِیْهِمْ اُجُوْرَهُمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۠   ۧ
وَ : اور الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرُسُلِهٖ : اور اس کے رسولوں پر وَلَمْ يُفَرِّقُوْا : اور فرق نہیں کرتے بَيْنَ : درمیان اَحَدٍ : کسی کے مِّنْهُمْ : ان میں سے اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ سَوْفَ : عنقریب يُؤْتِيْهِمْ : انہیں دے گا اُجُوْرَهُمْ : ان کے اجر وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : نہایت مہربان
اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے اور ان میں سے کسی میں فرق نہ کیا (یعنی سب کو مانا) ایسے لوگوں کو وہ عنقریب ان (کی نیکیوں) کے صلے میں عطا فرمائے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
آیت 152 یہاں تک لوگوں کی دو اقسام ہیں جن کو ہر ایک کے لئے واضح کردیا گیا ہے۔ (1) اللہ تعالیٰ اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں پر ایمان لانے والے لوگ (2) اللہ تعالیٰ اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں کا انکار کرنے والے لوگ۔ رہ گئی تیسری قسم، تو یہ وہ لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ بعض رسولوں پر تو ایمان لاتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے اور یہی وہ راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دے گا مگر یہ ان کی مجرد آرزوئیں ہیں۔ پس یہ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ جو کوئی حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ کو اپنا ولی اور دوست بناتا ہے وہ تمام انبیاء و رسل کو دوست بناتا ہے کیونکہ یہی اللہ تعالیٰ کی دوستی کی تکمیل ہے اور جو کوئی انبیاء و رسل میں سے کسی ایک کے ساتھ عداوت رکھتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ اور تمام رسولوں سے عداوت رکھتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (من کان عدوا للہ وملٓئکتہ و رسلہ و جبرئیل و میکمل فان اللہ عدو للکفرین) (البقرہ :98/2) ” جو کوئی اللہ، اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں، جبرئیل اور میکائیل کا دشمن ہو تو تو اللہ ان کافروں کا دشمن ہے۔ “ اسی طرح جو کوئی کسی رسول کا انکار کرتا ہے وہ تمام رسولوں کا انکار کرتا ہے بلکہ وہ اس رسول کا بھی انکار کرتا ہے جس کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ وہ اس پر ایمان لایا ہے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (اولئک ھم الکفرون حقا) ” وہ بلاشبہ کافر ہیں پکے۔ “ اور (حقا) کا لفظ اس لئے استعملا کیا ہے تاکہ کوئی اس وہم میں مبتلا نہ ہو کہ ان کا متربہ ایمان اور کفر کے درمیان ہے اور ان کے کافر ہونے کی۔۔۔ یہاں تک کہ اس رسول کے ساتھ بھی کفر کرنے کی، جس پر وہ ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔۔۔ وجہ یہ ہے کہ ہر وہ دلیل جو اس نبی پر ایمان لانے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے، وہی دلیل یا اس جیسی یا اس سے بڑھ کر دلیل موجود ہے جو اس نبی کی نبوت پر دلالت کرتی ہے جس کا وہ انکار کر رہے ہیں۔ اسی طرح ہر وہ شبہ جس کی بنیاد پر وہ اس نبی پر اعتراض کرتے ہیں جس کے ساتھ انہوں نے کفر کیا ہے، وہی شبہ، یا اس جیسا یا اس سے بھ بڑا شبہ اس نبی کی نبوت میں بھی موجود ہے جس پر وہ ایمان لائے ہیں۔۔۔ تب اس کے بعد سوائے، خواہشات نفس اور مجرد دعویٰ کے کچھ باقی نہیں جس کے مقابلہ میں اس جیسا دعویٰ کرنا ہر ایک کے لئے ممکن ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ یہی لوگ حقیقی (پکے) کافر ہیں تو اس عذاب کا ذکر بھی فرما دیا جو ان کو اور دیگر کفار کو دیا جائے گا۔ (واعتدنا للکفرین عذاباً مھینا) ” اور ہم نے کافروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ “ جس طرح انہوں نے تکبر کی بنا پر ایمان لانے سے انکار کردیا اسی طرح اللہ تعالیٰ رسوا کن اور درد ناک عذاب کے ذریعے سے ان کو رسوا کرے گا۔ (والذین امنوا باللہ و رسلہ) ” اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔ “ یہ آیت کریمہ ہر اس خبر پر ایمان لانے و متضمن ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے بارے میں دی ہے اور ان تمام اخبار و اکام پر ایمان لانے کو بھی جنہیں لے کر انبیاء ورسل مبعوث ہئے۔ (ولم یفرقوابین احد منھم) ” اور انہوں نے ان میں سے کسی میں فرق نہ کیا۔ ‘ بلکہ وہ تمام انبیاء و رسل پر ایمان لائے اور یہی وہ حقیقی اور یقینی ایمان ہے جو دلیل اور برہان پر مبنی ہے۔ (اولئک سوف یوئیتھم اجورھم) ” ایسے لوگوں کو وہ عنقریب ان (کی نیکیوں) کے صلے عطا فرمائے گا۔ “ یعنی ان کے ایمان اور ایمان پر مبنی عمل صالح، قول حسن اور خلق جمیل کی جزا دی جائے گی اور یہ جزا ہر ایک کو اس کے حساب حال عطا وہ گی۔ شاید ان کے اجرا میں اضافے کا یہی سرنہاں ہے۔ (وکان اللہ غفوراً رحیماً ) ” اور اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ ‘ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ گناہوں کو بخش دیتا ہے اور نیکیوں کو قبول فرماتا ہے۔
Top