Tafseer-e-Saadi - An-Nisaa : 2
وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ١۪ وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِیْرًا
وَاٰتُوا : اور دو الْيَتٰمٰٓى : یتیم (جمع) اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال وَلَا : اور نہ تَتَبَدَّلُوا : بدلو الْخَبِيْثَ : ناپاک بِالطَّيِّبِ : پاک سے وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال اِلٰٓى : طرف (ساتھ) اَمْوَالِكُمْ : اپنے مال اِنَّهٗ : بیشک كَانَ : ہے حُوْبًا : گناہ كَبِيْرًا : بڑا
اور یتیموں کا مال (جو تمہاری تحویل میں ہو) ان کے حوالے کردو اور ان کے پاکیزہ (اور عمدہ) مال کو (اپنے ناقص اور) برے مال سے نہ بدلو اور نہ ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھاؤ۔ کہ یہ بڑا سخت گناہ ہے۔
آیت 2 اس سورة مبارکہ میں جن حقوق اعلباد کی تاکید کی گئی ہے، یہ ان میں سے پہلا حکم ہے اور وہ یتیم بچے ہیں جن کے باپ فوت ہوگئے ہیں جو ان کی کفالت کیا کرتے تھے۔ وہ بہت چھوٹے اور نہایت کمزور ہیں اپنے مصالح کی خود دیکھ بھال نہیں کرسکتے۔ بنا بریں اللہ رؤف و رحیم نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان یتیموں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ ان کے مال کے قریب نہ جائیں مگر بھلے طریقے سے اور جب یہ بالغ اور سمجھ دار ہوجائیں تو ان کا پورے کا پورا مال ان کے حوالے کردیں۔ (ولا تتبدلوا الخبیث) ” اور بدل نہ لو خبیث مال کو “ خبیث سے مراد ناحق یتیم کا مال کھانا ہے (بالطیب) طیب مال سے مراد حلال مال ہے جس میں کوئی حرج ہے نہ تاوان (ولاتاکلوآ اموالھم الی اموالکم) یعنی ” تم اپنے اموال کے ساتھ ان کے اموال نہ کھاؤ۔ “ اس آیت کریمہ میں یتیموں کا مال کھانے کی قباحت پر دلیل ہے۔ اس حال میں جبکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے خود اس کے مال میں رزق عطا کیا ہوتا ہے اور وہ اپنے مال کی وجہ سے یتیم کے مال سے مستغنی ہوتا ہے اور جو کوئی اس حال میں یتیم کا مال کھانے کی جرأت کرتا ہے تو وہ بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے (حوباً کبیراً ) یعنی گناہ عظیم اور بہت بڑا بوجھ۔ خبیث کو طیب سے بدلنا یہ ہے کہ یتیم کا سرپرست یتیم کا نفیس مال خود رکھ لے اور اس کے بدلے میں اپنا گھٹیا مال یتیم کو دے دے۔ اس آیت کریمہ میں یتیم کی سرپرستی کی دلیل ہے۔ کیونکہ یتیم کو اس کا مال حوالے کرنے والے کی سرپرستی ثابت ہوتی ہے۔ اس میں اس بات کا بھی حکم ہے کہ یتیم کے مال کی اصلاح کی جائے کیونکہ یتیم کو اس کا پورا مال حوالے کرنے کے حکم میں از خود یہ بات آجاتی ہے کہ اس مال کی حفاظت کی جائے اس کی اصلاح اور نشو و نما کا انتظام کیا جائے اور اس کو تلف ہونے کے خطرات سے بچایا جائے۔
Top