Tafseer-e-Saadi - An-Nisaa : 65
فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
فَلَا وَرَبِّكَ : پس قسم ہے آپ کے رب کی لَا يُؤْمِنُوْنَ : وہ مومن نہ ہوں گے حَتّٰي : جب تک يُحَكِّمُوْكَ : آپ کو منصف بنائیں فِيْمَا : اس میں جو شَجَرَ : جھگڑا اٹھے بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان ثُمَّ : پھر لَا يَجِدُوْا : وہ نہ پائیں فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : اپنے دلوں میں حَرَجًا : کوئی تنگی مِّمَّا : اس سے جو قَضَيْتَ : آپ فیصلہ کریں وَيُسَلِّمُوْا : اور تسلیم کرلیں تَسْلِيْمًا : خوشی سے
تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے
آیت 65 اللہ تبارک و تعالیٰ اوامر کے ضمن میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور فرمانبرداری کی ترغیب دیتے ہوئے آگاہ ہے کہ انبیاء و رسل کو مبعوث کرنے کی غرض وغایت صرف یہی ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے اور جن کی طرف رسول بھیجا گیا ہے وہ اس کے تمام احکام کی تعمیل کریں، اس کے نواہی سے اجتناب کریں اور وہ اس کی ویسے ہی تعظیم کریں جیسے اطاعت کرنے والا مطاع کی تعظیم کرتا ہے۔ اس آیت میں عصمت انبیاء کا اثبات ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے، حکم دینے اور منع کرنے میں ہر لغزش سے پاک ہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوگوں کو انبیاء کرام کی مطلق اطاعت کا حکم دیا ہے اگر وہ منصب تشریع میں خطا سے پاک نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کی مطلق اطاعت کا حکم نہ دیتا۔ (باذن اللہ) ” اللہ کے فرمان کے مطابق۔ “ یعنی اطاعت کرنے والے کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے صادر ہوتی ہے۔ پس اس آیت میں قضا و قدر کا اثبات ہے نیز اس میں اس امر کی ترغیب ہے کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہیے نیز اس میں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ انسان اس وقت تک رسول کی اطاعت نہیں کرسکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال نہ ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے عظیم جود و کرم کا ذکر فرمایا ہے اور ان لوگوں کو دعوت دی ہے جن سے گناہ سرزد ہوئے کہ وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کریں، توبہ کر کے اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کریں۔ چناچہ فرمایا : (ولو انھم اد ظلموا انفسھم جآء وک) ” اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا آپ کے پاس آجاتے “ یعنی اپنے گناہوں کا اعتراف اور اقرار کرتے ہوئے آپ ﷺ کے پاس آتے۔ (فاستغفروا اللہ واستغفر لھم الرسول لوجدوا اللہ تواباً رحمیاً ) ” اور اللہ سے استغفار کرتے اور رسول ان کے لئے استغفار کرتا تو یقیناً یہ لوگ اللہ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ ان کا ظلم بخش کر ان کی طرف پلٹ آتا۔ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کر کے، توبہ کی توفیق اور اس پر ثواب عطا کر کے ان پر رحم فرماتا۔ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس حاضری کا تعلق آپ کی زندگی کے ساتھ مختص تھا کیونکہ سیاق دلالت کرتا ہے کہ رسول کی طرف سے استغفار آپ کی زندگی ہی میں ہوسکتا ہے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ سے کچھ نہ مانگا جائے، بلکہ یہ شرک ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اقدس کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے جھگڑوں میں اس کے رسول کو حکم تسلیم نہ کریں۔ یعنی ہر اس معاملے میں رسول اللہ ﷺ کو حکم اور فیصل تسلیم کریں جس میں اجماعی مسائل کے برعکس ان کے درمیان کسی قسم کا کوئی اختلاف واقع ہو۔ کیونکہ اجماعی مسائل کتاب و سنت کی دلیل پر مبنی ہوتے ہیں۔ پھر اس تحکیم کو تسلیم کرنا ہی کافی قرار نہیں دیا بلکہ یہ شرط بھی عائد کی کہ آپ کو حکم تسلیم کرنا محض اغماض کے پہلو سے نہ ہو بلکہ ان کے دلوں میں کسی قسم کی تنگی اور حرج نہ ہو اور اس تحکیم کو ہی کافی قرار نہیں دیا جب تک کہ وہ شرح صدر، اطمینان نفس، ظاہری اور باطنی اطاعت کے ساتھ آپ کے فیصلے کو تسلیم نہ کرلیں۔ پس آپ کو حکم تسلیم کرنا اسلام کے مقام میں ہے۔ اس تحکیم میں تنگی محسوس نہ کرنا، ایمان کے مقام میں ہے اور آپ کے فیصلے پر تسلیم و رضا احسان کے مقام میں ہے۔ جس کسی نے ان مراتب کو مکمل کرلیا اس نے دین کے تمام مراتب کی تکمیل کرلی اور جس نے اس کا التزام کئے بغیر اس تحکیم کو ترک کردیا وہ کافر ہے اور جس نے التزام کرن کے باوجود اس تحکیم کو ترک کردیا وہ دیگر گناہگاروں کی مانند ہے۔
Top