Tafseer-e-Saadi - An-Nisaa : 71
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ لوگ جو ایمان لائے) (ایمان والو) خُذُوْا : لے لو حِذْرَكُمْ : اپنے بچاؤ (ہتھیار) فَانْفِرُوْا : پھر نکلو ثُبَاتٍ : جدا جدا اَوِ : یا انْفِرُوْا : نکلو (کوچ کرو) جَمِيْعًا : سب
مومنو ! (جہاد کے لئے) ہتھیار لے لیا کرو پھر یا تو جماعت جماعت ہو کر نکلا کرو یا سب اکٹھے کوچ کیا کرو
آیت 71 اللہ تبارک و تعالیٰ اپن مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنے کفار دشمنوں سے چوکنے رہو۔ یہ حکم ان تمام اسباب کو شامل ہے جو دشمن کے خلاف جنگ میں مدد دیتے ہیں۔ جن کے ذریعے سے دشمن کی چالوں اور سازشوں کو ناکام بنایا جاتا اور اس کی قوت کو توڑا جاتا ہے۔ مثلاً قلعہ بندیوں اور خندقوں کا استعمال، تیر اندازی اور گھوڑ سواری سیکھنا اور ان تمام صنعتوں کا علم حاصل کرنا جو دشمن کے خلاف جنگ میں مدد دیتا ہے، وہ علوم سیکھنا جن کے ذریعے سے دشمن کے داخلی اور خارجی حالات اور ان کی سازشوں سے باخبر رہا جاسکے اور اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے نکلنا۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فانفروا ثبات) ” جماعت جماعت ہو کر نکلا کرو۔ “ یعنی متفرق ہو کر جہاد کے لئے نکلو اور اس کی صورت یہ ہے کہ ایک جماعت یا لشکر جہاد کے لئے نکلے اور دیگر لوگ مقیم رہیں (او انفروا جمعیاً ) ” یا تمام کے تمام جہاد کے لئے نکلو۔ “ یہ سب کچھ مصلحت، دشمن پر غلبہ حاصل کرنے اور دین میں مسلمانوں کی راحت کے تابع ہے۔ اس آیت کریمہ کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے (واعدوالھم ما استطعتم من قوۃ) (الانفال :60/18) ” جہاں تک ہو کسے دشمن کے مقابلہ کے لئے فوجی قوت تیار کرو۔ “ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کمزور ایمان مسلمانوں کے بارے میں آگاہ فرمایا جو کاہلی کی بنا پر جہاد سے جی چراتے ہیں۔ (وان منکم لمن لیبطئن) ” اور تم میں سے کوئی ایسا بھی ہے کہ عمداً دیر لگاتا ہے۔ “ یعنی اے اہل ایمان ! تم میں سے بعض لوگ کمزوری، سستی اور بزدلی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کے لئے نہیں نکلتے۔ یہی تفسیر صحیح ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس کے معنی ہیں، کہ وہ دوسروں کو جہاد کے لئے نکلنے سے روکتے ہیں۔ ایسا کرنے والے منافق تھے لیکن پہلے معنی دو لحاظ سے زیادہ صحیح ہیں۔ اول : اللہ تعالیٰ کا ارشاد (منکم) ” تم میں سے “ اس پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ یہ خطاب اہل ایمان سے ہے۔ ثانی : آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (کان لم تکن بینکم وبینہ مودۃ) ” گویا کہ تمہارے اور اس کے درمیان کوئی دوستی نہ تھی “ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کفار، مشرکین، منافقین اور اہل ایمان کے مابین محبت اور مودت کو منقطع کردیا، نیز یہ فی الواقع ایسے ہی ہے، اس لئے کہ اہل ایمان کی دو قسمیں ہیں۔ (1) وہ لوگ جو اپنے ایمان میں سچے ہیں، یہ صدق ایمان ان کے لئے کامل تصدیق اور جہاد کا موجب ہوتا ہے۔ (2) وہ کمزور لوگ جو اسلام میں داخل ہوتے ہیں مگر وہ کمزور ایمان کے مالک ہوتے ہیں جہاد پر نکلنے کے لئے قوت سے محروم ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (قالت الاعراب امنا ط قل لم تومنوا ولکن قولوآ اسلمنا۔۔۔ “ (الحجرات :13/79) ” عرب دیہاتی کہتے ہیں : ہم ایمان لائے۔ کہہ دیجیے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لائے۔ “ پھر اللہ تعالیٰ نے جہاد میں نہ نکلنے والوں کی غرض وغایت اور ان کے مقاصد کے بارے میں آگاہ فرمایا کہ ان کا سب سے بڑا مقصد دنیا اور اس کے چند ٹکڑے ہیں۔ (فان اصابتکم مصیبۃ) ” پھر اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے “ یعنی اگر تمہیں ہزیمت اٹھانا پڑتی ہے، اہل ایمان قتل ہوتے ہیں اور بعض حالات میں دشمن ظفریاب ہوتا ہے کیونکہ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی کچھ حکمت ہوتی ہے (قال) یعنی جہاد سے جی چرا کر بیٹھ رہنے والا کہتا ہے : (قد انعم اللہ علی اذلم اکن معھم شہیدا) ” اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں ان کے ساتھ موجود نہیں تھا “ وہ اپنی ضعف عقل اور ضعف ایمان کی وجہ سے سمجھتا ہے کہ جہاد سے جی چرا کر پیچھے بیٹھ رہنا نعمت ہے حالانکہ یہی تو مصیبت ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ حقیقی نعمت تو اس بڑی نیکی کی توفیق ہے جس کے ذریعے سے ایمان قوی ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے بندہ عذاب اور خسران سے محفوظ ہوتا ہے اور اس جہاد میں ثواب اور رب کریم و وہاب کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ رہا جہاد چھوڑ کر بیٹھ رہنا تو اگرچہ پیچھے بیٹھ رہنے والا تھوڑا سا آرام تو کرلیتا ہے مگر اس آرام کے بعد طویل دکھ اور بہت بڑی تکالیف کا سامنا کرنا پ ڑتا ہے اور وہ اس عظیم اجر وثواب سے بھی محروم ہوجاتا ہے جو مجاہدین کو حاصل ہوتا ہے۔ پھر فرمایا : (ولئن اضابکم فضل من اللہ) ” اور اگر تمہیں اللہ کا کوئی فضل مل جائے “ یعنی فتح و نصرت اور مال غنیمت (لیقولن کان لم تکن بینکم وبینہ مودۃ یلیتنی کنت معھم فافوز فوزاً عظیماً ” تو اس طرح ہے کہ گویا تم میں، اس میں دوستی تھی ہی نہیں، (افسوس کرتا اور) کہتا ہے کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو مقصد عظیم حاصل کرلیتا۔ “ یعنی وہ تمنا کرتا ہے کہ وہ بھی جہاد میں شریک ہوتا تاکہ وہ بھی مال غنیمت حاصل کرسکتا۔ مال غنیمت کے سوا اس کا کوئی مقصد ہے، نہ اس کے سوا کسی اور چیز میں رغبت ہے۔ اے مسلمانوں کے گروہ ! وہ گویا تم میں سے نہیں ہیں اور نہ ان کے درمیان اور تمہارے درمیان رشتہ ایمان کی مودت و محبت ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ تمام مومنین اپنے مفادات و مصالح اور دفع ضرر میں مشترک ہیں۔ وہ اس کے حصول پر خوش ہوتے ہیں خواہ یہ مفاد و مصلحت مومن بھائیوں میں سے کسی کے ذریعے سے حاصل ہوئے ہوں اس سے محرومی پر دکھ محسوس کرتے ہیں اور جس میں ان کے دین اور دنیا کی اصلاح ہو، اس کے حصول کے لئے سب مل کر کوشش کرتے ہیں اور یہ فقط دنیا کی تمنا کرتا ہے اور مذکورہ روح ایمانی سے تہی دست ہوتا ہے۔ یہ بندوں پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ ان پر اپنی رحمت کا سلسلہ منقطع کرتا ہے، نہ اپنی رحمت کے دروازے ان پر بند کرتا ہے بلکہ اگر کوئی ایسا کام کر بیٹھتا ہے جو اس کے حکم کے مطابق نہیں ہوتا تو وہ اسے اپنے نقصان کی تلافی کرنے اور اپنے نفس کی تکمیل کی دعوت دیتا ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اخلاص اور اللہ کی راہ میں نکلنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا : (فلیقاتل فی سبیل اللہ الذین یشرون الحیوۃ الدنیا بالاخرۃ) ” پس چاہیے کہ وہ لوگ اللہ کے راستے میں لڑیں جو دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے بیچتے ہیں “ یہ اس آیت کی تفسیر کے بارے میں چند اقوال میں سے ایک قول ہے اور سب سے زیادہ صحیح ہے۔ ایک اور قول کے مطابق اس کا معنی یہ ہے کہ ان مومنوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا چاہیے جو اپنے ایمان میں کامل اور صدق کے حامل ہیں۔ (الذین یشرون الحیوۃ الدنیا بالاخرۃ) یعنی آخرت میں رغبت رکھتے ہیں دنیا کو آخرت کے بدلے بیچ دیتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ کے خطاب کا رخ ہے کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے کے لئے تیار کر کے عادی بنا لیا ہے، اس لئے کہ یہ لوگ ایمان کامل کے حامل ہیں جو جہاد کا تقاضا کرتا ہے۔ رہے وہ لوگ جو جہاد کے لئے نہیں اٹھتے تو یہ لوگ جہاد کے لئے نکلیں یا گھر بیٹھے رہیں اللہ تعالیٰ کو ان کی پروا نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی نظیر ہے (قل امنوا بہ اولا تومنوا ان الذین اوتوا العلم من قبلہ اذا یتلی علیھم یخزون للاذقان سجدا) (بنی اسرائیل :108/18) ” کہہ دیجیے کہ تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے جب وہ ان کو پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ اپنی ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گرپڑتے ہیں “ آیات کے آخرتک۔ نیز اس کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔ (فان یکفربھا ھولآء فقد وکلنا بھا قوماً لیسوا بھابکفرین) (الانعام :89/6) ” اگر یہ کفار اس کا انکار کرتے ہیں تو ہم نے اس پر ایمان لانے کے لئے کچھ ایسے لوگوں کو مقرر کردیا ہے جو اس کا انکار کرنے والے نہیں۔ “ بعض کہتے ہیں کہ اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ لڑائی کرنے والے مجاہد کو کفار کے خلاف لڑنا چاہیے جنہوں نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی خرید لی ہے۔ تب اس صورت میں آیت کریمہ میں موجود لفظ (الذین) مفعول ہونے کی بنا پر نصب کے مقام پر ہے۔ فرمایا : (ومن یقاتل فی سبیل اللہ) ” اور جو لڑتا ہے اللہ کے راستے میں “ یعنی یہ جہاد ہو جس کا اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حکم دیا ہے اور بندہ اس میں اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص اور اس کی رضا کا قصد رکھتا ہو (فیقتل اویغلب فسوف نوتیہ اجراً عظیماً ) ” پس وہ قتل کردیا جائے یا غالب آجائے، ہم اسے اجر عظیم عطا کریں گے “ یعنی یہ اجر ان کے دین و ایمان میں اضافہ، مال غنیمت اور ثنائے حسن کی صورت میں عطا ہوگا۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے جنت میں وہ ثواب تیار کر رکھا ہے جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے دل میں اس کا کبھی گزر ہوا۔
Top