Tafseer-e-Saadi - An-Nisaa : 76
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ۚ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْۤا اَوْلِیَآءَ الشَّیْطٰنِ١ۚ اِنَّ كَیْدَ الشَّیْطٰنِ كَانَ ضَعِیْفًا۠   ۧ
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) يُقَاتِلُوْنَ : وہ لڑتے ہیں فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) يُقَاتِلُوْنَ : وہ لڑتے ہیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ الطَّاغُوْتِ : طاغوت (سرکش) فَقَاتِلُوْٓا : سو تم لڑو اَوْلِيَآءَ : دوست (ساتھی) الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّ : بیشک كَيْدَ : فریب الشَّيْطٰنِ : شیطان كَانَ : ہے ضَعِيْفًا : کمزور (بودا)
جو مومن ہیں سو وہ تو خدا کے لئے لڑتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ بتوں کے لئے لڑتے ہیں سو تم شیطان کے مدد گاروں سے لڑو (اور ڈرو مت) کیونکہ شیطان کا داؤ بود ہوتا ہے
آیت 76 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر ہے کہ اہل ایمان اس کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ (والذین کفروا یقاتلون فی سبیل الطاغوت) ” اور کافر طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں “ یہاں طاغوت سے مراد شیطان ہے۔ اس آیت سے متعدد فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ (1) بندہ مومن کے ایمان، اس کے اخلاص اور اس کی اتباع رسول ﷺ کے مطابق، اس کا جہاد اللہ کے راستے میں جہاد شمار ہوتا ہے۔ پس جہاد فی سبیل اللہ ایمان کے آثار، اس کے مقتضیات اور اس کے لوازم میں سے ہے۔ جیسے طاغوت کی راہ میں لڑنا کفر اور اس کے مقتضیات میں سے ہے۔ (2) جو کوئی اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتا ہے اس کے لئے مناب اور بہتر یہ ہے کہ وہ ایسے صبر و استقلال سے کام لے جس کا مظاہرہ دیگر لوگ نہیں کرسکتے جب اولیائے شیطان لڑائی کرتے ہیں اور لڑائی میں صبر سے کام لیتے ہیں حالانکہ وہ اہل باطل ہیں۔ تب اہل حق کو تو صبر و استقلال سے زیادہ کام لینا چاہیے جیسا کہ اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (ان تکونوا تالمون فانھم یالمون کما تالمون و ترجون من اللہ مالا یرجون) (النساء :103/3) ” اگر تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو جس طرح تمہیں تکلیف پہنچتی ہے اسی طرح ان کفار کو بھی تکلیف پہنتچی ہے۔ البتہ تم اللہ تعالیٰ سے ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے۔ “ (3) وہ بندہ مومن جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتا ہے اس کے پاس ایک مضبوط سہارا ہوتا ہے اور وہ ہے جق اور اللہ تعالیٰ پر توکل۔ اس مضبوط اور صاحب قوت ہستی سے صبر و ثبات اور نشاط طلب کئے جاتے ہیں۔ جبکہ باطل کے راستے میں لڑنے والے، جس کی کوئی حقیقت نہیں اور نہ اس کا کوئی قابل تعریف انجام ہے یہ صبر و ثبات کہیں سے طلب نہیں کرسکتے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (فقاتلوآ اولیآء الشیطن ان کید الشیطن کان ضعیفاً “ تم شیطان کے مددگاروں سے لڑو یقیناً شیطان کا داؤ کمزور ہوتا ہے۔ “ (کید) سے مراد وہ خفیہ چال ہے جس کے ذریعے سے دشمن کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ شیطان کی چال خواہ کتنی ہی خطرناک کیوں نہ ہو، بہرحال وہ انتہائی کمزور ہوتی ہے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ حق کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ نہ وہ اس چال کے سامنے کھڑی رہ سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کے لئے چلتا ہے۔
Top