Tafseer-e-Saadi - Al-Ghaafir : 66
قُلْ اِنِّیْ نُهِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَمَّا جَآءَنِیَ الْبَیِّنٰتُ مِنْ رَّبِّیْ١٘ وَ اُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
قُلْ : فرمادیں اِنِّىْ نُهِيْتُ : مجھے منع کردیا گیا ہے اَنْ : کہ اَعْبُدَ : پرستش کروں میں الَّذِيْنَ : وہ جن کی تَدْعُوْنَ : تم پوجا کرتے ہو مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا لَمَّا : جب جَآءَنِيَ : میرے پاس آگئیں الْبَيِّنٰتُ : کھلی نشانیاں مِنْ رَّبِّيْ ۡ : میرے رب سے وَاُمِرْتُ : اور مجھے حکم دیا گیا اَنْ اُسْلِمَ : کہ میں اپنی گردن جھکادوں لِرَبِّ : پروردگار کیلئے الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
(اے محمد ! ﷺ ان سے) کہہ دو کہ مجھے اس بات کی ممانعت کی گئی ہے کہ جن کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو میں ان کی پرستش کروں (اور میں انکی پرستش کیونکر کروں) جبکہ میرے پاس میرے پروردگار (کی طرف) سے کھلی دلیلیں آچکی ہیں اور مجھ کو حکم ہوا ہے کہ پروردگار عالم ہی کا تابع فرمان رہوں
آیت 66 (آیت) ” کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اللہ کی آیات میں جھگڑتے ہیں۔ “ کیا آپ کو ان لوگوں کی مذموم حالت پر تعجب نہیں جو اللہ تعالیٰ کی واضح آیات کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں۔ (آیت) ” کہاں سے وہ (حق سے) پھیرے جا رہے ہیں ؟ “ یعنی ان آیات سے کیسے منہ موڑ رہے ہیں ؟ اس کامل تو ضیح وتبین کے باوجود وہ کدھر جا رہے ہیں ؟ کیا ان کے پاس ایسے دلائل ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات سے متعارض ہوں ؟ اللہ کی قسم ! ہرگز نہیں۔ یا وہ ایسے شبہات پاتے ہیں جو ان کی خواہشات کے موافق ہیں اور وہ اپنے باطل نظریات کی تائید میں ان شبہات کو لے کر چڑھ دوڑتے ہیں ؟ بدترین ہے وہ چیز جو انہوں نے اپنے لئے اختیار کی اور کتاب اللہ اور رسولوں کی تکذیب کے بدلے حاصل کی جو رسول مخلوق میں سب سے افضل، سب سے سچے اور سب سے زیادہ خرد مند ہیں۔ بھڑکتی ہوئی آگ کے سوا ان تکذیب کرنے والوں کے لئے کوئی جزا نہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو جہنم کی آگ کی وعید سناتے ہوئے فرمایا : (آیت) ” وہ عنقریب جان لیں گے جب کہ ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے۔ “ جس کی وجہ سے وہ حرکت نہیں کرسکیں گے (والسلسل) ” اور زنجیریں (ہوں گی) “ جن کے ساتھ ان کو اور ان کے شیاطین کو جکڑ دیا جائے گا۔ (یسعبون، فی الحمیم) یعنی سخت کھولتے ہوئے پانی میں ان کو گھسیٹا جائے گا۔ (ثم فی النار یسجرون) ” پھر وہ آگ میں جھونک دیئے جائیں گے۔ “ ان کے لئے بڑے شعلے بھڑکائے جائیں گے اور ان کے اندر ان کو ڈالا جائے گا پھر ان کے شرک اور کذب پر ان کی زجر و توبیخ کی جائے گی اور ان سے کہا جائے گا : (آیت) ” کہاں ہیں وہ جن کو تم اللہ کے سوا اللہ کے شریک بناتے تھے۔ “ کیا انہوں نے تمہیں کوئی فائدہ دیا یا انہوں نے تم سے عذاب کو دور کردیا ؟ (قالوا ضلوعنا) ” وہ کہیں گے وہ تو ہم سے بھول گئے ہیں “ یعنی وہ ہم سے دور ہوگئے اگر وہ موجود بھی ہوتے تب بھی ہمیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکتے۔ پھر وہ انکار کرتے ہوئے کہیں گے : (بل لم نکن ندعوا من قبل شیاء) ” بلکہ ہم تو پہلے کسی چیز کو نہیں پکارتے تھے۔ “ اس میں اس کا احتمال ہے کہ ان کے اس انکار سے مراد یہ ہو کہ وہ سمجھتے ہوں کہ یہ انکار ان کے کام آئے گا اور ان کو فائدہ دے گا۔ دوسرا احتمال یہ ہے، اور یہی زیادہ قوی ہے، کہ ان کی مراد، اپنے خود اسختہ معبودوں کی الوہیت کے بطلان کا اقرار ہو، نیز اس حقیقت کا اقرار ہو کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں اور انہوں نے ہستی کی عبادت کر کے گمراہی اور خطا کا ارتکاب کیا جس میں الوہیت معدوم ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے (آیت) ” اسی طرح اللہ کافروں کو گمراہ کرتا ہے۔ “ یعنی اس گمراہ کے مانند جس میں یہ دنیا میں مبتلا تھے۔ یہ گمراہی سب پر واضح تھی، حتی کہ خود ان پر بھی واضح تھی، جس کے بطلان کا اقرار یہ لوگ قیامت کے روز کریں گے، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے ارشاد : (آیت) ” اور جو لوگ اللہ کے سوا خود اسختہ شریکوں کو پکارتے ہیں وہ محض وہم و گمان کی پیروی کرتے ہیں۔ “ کا معنی بھی واضح ہوجائے گا اور اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے : (آیت) ” اور قیامت کے روز وہ تمہارے شرک کا انکار کریں گے۔ “ اور یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے : (آیت) ” اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوسکتا ہے جو اللہ کے سوا ایسی ہستیوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک ان کی پکار کا جواب نہیں دے سکتیں۔ “ اہل جہنم سے کہا جائے گا : (ذلکم) یہ عذاب جو تمہارے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ (آیت) ” اس وجہ سے کہ تم زمین میں ناحق اتراتے تھے اور اس وجہ سے (بھی) کہ تم اکڑتے تھے۔ “ یعنی یہ اس باطل کے سبب سے ہے جس پر تم بہت خوش ہوتے تھے اور ان علوم کے باعث ہے جن کے ذریعے سے تم انبیاء ومرسلین کے علوم کی مخالفت کیا کرتے تھے اور تم بغاوت، ظلم، تعدی اور عصیان کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ تکبر سے پیش آیا کرتے تھے۔ جی اس کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورة مبارکہ کے آخر میں فرمایا : (آیت) ” جب ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے یہ اپنے اسی علم پر خوش رہے جو ان کے پاس تھا۔ “ اور جی اس کہ قارون کی قوم نے اس سے کہ کا تھا : (آیت) ” خوشی سے مت اترا، اللہ خوشی سے اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ “ یہ مذموم خوشی ہے جو عذاب کی موجب ہے۔ اس کے برعکس اس فرحت کے بارے میں جو قابل مدح ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (آیت) ” کہہ دیجیے ! یہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے (کہ اس نے یہ کتاب نازل فرمائی) اس پر انہیں خوش ہونا چاہیے۔ “ یہ وہ فرحت ہے جو علم نافع اور عمل صالح سے حاصل ہوتی ہے۔ (آیت) ” جہنم کے دروازوں میں سے داخل ہوجاؤ۔ “ ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جہنم کے طبقات میں سے ایک طبقے میں داخل کردیا جائے گا۔ (آیت) ” اس میں تم ہمیشہ رہو گے۔ “ وہ کبھی بھی وہاں سے نہ نکلیں گے۔ “ (آیت) ” وہ ایسا ٹھکانا ہوگا جہاں ان کو کمحبوس کر کے ذلیل و رسوا کیا جائے گا اور عذاب دیا جائے گا اور جہاں کبھی انہیں سخت گرمی میں اور کبھی سخت سردی میں داخل کیا جائے گا۔
Top