Tafseer-e-Saadi - Al-Fath : 29
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا١٘ سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ١ؕ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ١ۛۖۚ وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ١ۛ۫ۚ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ١ؕ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۠   ۧ
مُحَمَّدٌ : محمد رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے رسول وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ مَعَهٗٓ : ان کے ساتھ اَشِدَّآءُ : بڑے سخت عَلَي الْكُفَّارِ : کافروں پر رُحَمَآءُ : رحم دل بَيْنَهُمْ : آپس میں تَرٰىهُمْ : تو انہیں دیکھے گا رُكَّعًا : رکوع کرتے سُجَّدًا : سجدہ ریز ہوتے يَّبْتَغُوْنَ : وہ تلاش کرتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے، کا وَرِضْوَانًا ۡ : اور رضا مندی سِيْمَاهُمْ : ان کی علامت فِيْ وُجُوْهِهِمْ : ان کے چہروں میں مِّنْ : سے اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ : سجدوں کا اثر ذٰلِكَ : یہ مَثَلُهُمْ : انکی مثال (صفت) فِي التَّوْرٰىةِ : توریت میں وَمَثَلُهُمْ : اور انکی مثال (صفت) فِي الْاِنْجِيْلِ ۾ : انجیل میں كَزَرْعٍ : جیسے ایک کھیتی اَخْرَجَ : اس نے نکالی شَطْئَهٗ : اپنی سوئی فَاٰزَرَهٗ : پھر اسے قوی کیا فَاسْتَغْلَظَ : پھر وہ موٹی ہوئی فَاسْتَوٰى : پھر وہ کھڑی ہوگئی عَلٰي سُوْقِهٖ : اپنی جڑ (نال) پر يُعْجِبُ : وہ بھلی لگتی ہے الزُّرَّاعَ : کسان (جمع) لِيَغِيْظَ : تاکہ غصہ میں لائے بِهِمُ : ان سے الْكُفَّارَ ۭ : کافروں وَعَدَ اللّٰهُ : وعدہ کیا اللہ نے الَّذِيْنَ : ان سے جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے اعمال کئے الصّٰلِحٰتِ : اچھے مِنْهُمْ : ان میں سے مَّغْفِرَةً : مغفرت وَّاَجْرًا عَظِيْمًا : اور اجر عظیم
محمد ﷺ خدا کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں تو سخت ہیں اور آپس میں رحم دل (اے دیکھنے والے) تو انکو دیکھتا ہے کہ (خدا کے آگے) جھکے ہوئے سربسجود ہیں اور خدا کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کر رہے ہیں (کثرت) سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں ان کے یہی اوصاف تورات میں (مرقوم) ہیں اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں (وہ) گویا ایک کھیتی ہیں جس نے (پہلے زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اس کو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی اور لگی کھیتی والوں کو خوش کرنے تاکہ کافروں کا جی جلائے جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے خدا نے گناہوں کی بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول ﷺ اور ان کے صحابہ، جو مہاجرین و انصار میں سے ہیں، ان کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ وہ کامل ترین صفات اور جلیل ترین احوال کے حامل ہیں اور وہ (اشداء علی الکفار) کفار کے ساتھ بہت سخت ہیں، فتح و نصرت میں جدو جہد اور اس بارے میں پوری کوشش کرنے والے ہیں۔ وہ کفار کے ساتھ صرف درشتی اور سختی سے پیش آتے ہیں۔ اسی لئے ان کے دشمن ان کے سامنے ذلیل ہوگئے، ان کی طاقت ٹوٹ گئی اور مسلمان ان پر غالب آگئے۔ (رحماء بینھم) یعنی صحابہ آپس میں محبت کرنے والے، ایک دوسرے پر مہربانی کرنے والے اور ایک دوسرے کے ساتھ شفقت اور عاطفت کے ساتھ پیش آنے والے ہیں۔ وہ جسد واحد کی مانند ہیں ان میں سے ہر کوئی اپنے بھائی کے لئے وہی پسند کرتا ہے، جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ یہ ہے ان کا مخلوق کے ساتھ معاملہ۔ رہا خالق کے ساتھ ان کا معاملہ، تو (ترھم رکعا سجدا) ” تم ان کو رکوع اور سجدے کی حالت میں دیکھو گے۔” یعنی ان کا وصف کثرت نماز ہے جس کے جلیل ترین ارکان رکوعد اور سجود ہیں (یبتغون) وہ اس عبادت کے ذریعے سے طلب گار ہیں (فضلا من اللہ ورضوانا) ” اللہ کے فضل اور اس کی رضا مندی کے۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا تک پہنچنا اور اس کا ثواب حاصل کرنا ان کا مطلوب و مقصود ہے۔ (سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود) حسن عبادات اور اس کی کثرت نے ان کے چہروں پر اثر کیا ہے حتیٰ کہ وہ منور ہوگئے ہیں، چونکہ نماز کے نور سے ان کے باطن روشن ہیں، لہذا جلال سے ان کے ظاہر منور ہیں (ذلک) یہ مذکورہ احوال (مثلھم فی التوربۃ) یعنی ان کا یہ وصف جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو موصوف کیا ہے، تو رات کریم میں اسی طرح ذکر کیا گیا ہے۔ انجیل میں ان کو ایک اور وصف سے موصوف کیا گیا ہے کہ وہ اپنے کمال اور باہم تعاون میں (کزرع اخرج شطءۃ فازرہ) ” گویا ایک کھیتی ہے جس نے اپنی سوئی نکالی، پھر اس کو مضبوط کیا۔ “ یعنی اس نے اپنی جڑ سے شاخیں نکالیں پھر ان کو استواو ثبات میں مضبوط کیا۔ (فاستغلظ) پس یہ کھیتی طاقت ور اور مضبوط ہوگئی۔ (فاستوی علی سوقہ) ” پھر قوت کے ساتھ کھڑی ہوگئی اپنے تنے پر “ (سوق) جمع ہے ساق کی، یعنی اپنی جڑوں پر کھڑی ہوگئی۔ مراد یہ ہے کہ یہ کھیتی مضبوط اور قوی ہوگئی اور اس کے تنے کھڑے ہوگئے۔ (یعجب الزراع) جو اپنے کامل طور پر سیدھا کھڑا ہونے اور اپنے حسن اعتدال کی بنا پر کاشتکاروں کو بھلی لگتی ہے۔ اسی طرح صحابہ کرام ؓ مخلوق کو نفع پہنچانے اور لوگوں کا ان کی طرف ضرورت مند ہونے کی وجہ سے، کھیتی کی مانند ہیں۔ ان کی قوت ایمان اور قوت عمل پودے کی رگوں اور اس کے تنوں کی مانند ہے۔ وہ کم عمر صحابۂ کرام ؓ اور جن کا اسلام متاخر تھا، جنہوں نے بزرگ صحابہ کرام کی پیروی کی، ان کے ہاتھ مضبوط کیے، اقامت دین اور دعوت دین میں ان کی مثال اس کھیتی کی مانند ہے جس نے اپنی جڑوں سے سوئے نکالے، پھر اس کو مضبوط کیا پھر وہ موٹی ہوگئی۔ بنابریں فرمایا : (لیغیظ بھم الکفار) ” تاکہ ان کی وجہ سے اللہ کافروں کو چڑائے “ جب کفار ان کے اجتماع اور دشمنان دین پر ان کی سختی کو دیکھتے ہیں نیز جب وہ دست بدست لڑائی اور جنگی معرکوں میں ان کی بہادری کو دیکھتے ہیں، تو یہ چیز ان کے دل کو جلاتی ہے۔ (وعد اللہ الذین امنوا وعملوا لصلحت منھم مغفرۃ و اجرا عظیما) پس صحابہ کرام ؓ ، جنہوں نے ایمان اور عمل صالح کو جمع کیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مغفرت، جس کا لازمہ دنیا وآخرت میں ہر قسم کے شر سے حفاظت ہے اور دنیا و آخرت کے اندر اجر عظیم کو جمع کیا۔ صلح حدیبیہ کے واقعات ہم صلح حدیبیہ کے واقعات پوری تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں جیسا کہ امام شمس الدین ابن قیم (رح) نے ” زاد المعاد “ میں بیان کیے ہیں کیونکہ ان واقعات سے اس سورة مبارکہ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ابن قیم (رح) نے اس سورة مبارکہ کے اسر اور و معافی پر بھی بحث کی ہے۔ چناچہ انہوں نے فرمایا : نافع (رح) کہتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کا واقعہ ذی قعد 6 ھ میں پیش آیا اور یہی صحیح ہے۔ امام زہری، قتادہ، موسیٰ بن عقبہ اور محمد بن اسحاق (رح) وغیرہ کی بھی یہی رائے ہے۔ ہشام بن عروہ (رح) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ماہ رمضان میں حدیبیہ کی طرف روانہ ہوئے اور صلح حدیبیہ کا واقعہ شوال میں پیش آیا مگر یہ وہم ہے رمضان میں تو مکہ فتح ہوا تھا۔ ابو الا سود عروہ بن زبیر (رح) سے روایت کرتے ہیں کہ صحیح یہی ہے کہ صلح حدیبیہ ذی قعد میں ہوئی تھی۔ صحیحن میں حضرت انس ؓ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چار عمرے کیے، جو سب کے سب ذی قعد میں تھے۔ ان میں عمرہ حدیبیہ بھی ذکر کیا، آپ کے ساتھ پندرہ سو نفوس تھے۔ صحیحن میں حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ صحین میں حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ صحیحن ہی میں حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کے ساتھ چودہ سو نفوس تھے۔ صحیحن میں عبد اللہ بن ابی اوفی ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم تیرہ سو افراد تھے۔ قتادہ (رح) روایت کرتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب (رح) سے پوچھا کہ کتنے لوگوں کی جماعت تھی جو بیعت رضوان میں شریک ہوئی ؟ انہوں نے جواب دیا ” پندرہ سو افراد تھے “ میں نے عرض کیا ” حضرت جابر ؓ فرماتے تھے کہ وہ چودہ سو افراد تھے “ سعید بن مسیب (رح) نے فرمایا :” اللہ ان پر رحم فرمائے، انہیں وہم ہوا ہے، انہی نے مجھے بتایا ہے کہ وہ پندرہ سو افراد تھے۔ “ میں (ابن قیم) کہتا ہوں :” حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے دونوں قول صحت کے ساتھ مروی ہیں اور ان سے یہ بھی مروی ہے کہ حدیبیہ والے سال ستر اونٹ قربان کیے، ایک اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کیا گیا۔ ان سے پوچھا گیا ” آپ کتنے افراد تھے ؟ “ حضرت جابر ؓ نے جواب دیا :” سوار اور پیدل دونوں مل کر چودہ سو نفوس تھے “ یعنی ان کے سوار اور پیادے۔ میلان قلب بھی زیادہ اسی طرف ہے، براء بن عازب، معقل بن یسار اور سلمہ بن الاکوع ؓ سے بھی صحیح تر روایت کے مطابق یہی تعداد ہے اور مسیب بن حزن ؓ کا بھی ایک قول یہی ہے۔ شعبہ (رح) ، قتادہ (رح) سے، قتادہ سعید بن مسیب (رح) سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ درخت کے نیچے (بیعت کرنے والے) چودہ سو افراد تھے۔ جس نے یہ کہا کہ وہ کل سات سو افراد تھے اس نے واضح طور پر غلطی کی ہے۔ سات سو افراد کہنے والے حضرات کا عذر یہ ہے کہ صحابہ کرام نے اس روز ستر اونٹ ذبحح کیے تھے اونٹ کی قربانی کے بارے میں آتا ہے کہ اونٹ کی قربانی سات یا دس افراد کی طرف سے کافی ہے۔ مگر یہ بھی اس قائل کے دعویٰ پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ راوی نے تصریح کی ہے کہ اس غزوہ میں ایک اونٹ سات افراد کی طرف سے ذبح کیا گیا تھا۔ اگر قربانی کے ستر اونٹ سب کی طرف سے ہوتے تو کل چار سونوے افراد ہوتے۔ راوی مکمل حدیث اسی طرح بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ کل چودہ سو نفوس تھے۔ فصل جب رسول اللہ ﷺ ذی الحلیفہ پہنچے تو آپ نے قربانیوں کو ہار پہنائے اور علامتیں لگائیں اور عمرے کا احرام باندھا اور اپنے آگے بنو خزاعہ میں سے ایک جاسوس بھیجا جو قریش کے حالات کے بارے میں آگاہ کرے۔ جب آپ عسفان کے قریب پہنچے تو آپ کے جاسوس نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا ” میں کعب بن لوی کو اس حال میں چھوڑ کر آیا ہوں کہا انہوں نے آپ کے مقابلے کے لیے، مختلف قبیلوں سے لوگوں کو جمع کر رکھا ہے وہ سب جمع ہو کر آپ سے ضرور لڑیں گے اور بیت اللہ کی زیارت سے آپ کو روکیں گے۔ رسول مصطفیٰ ﷺ نے اپنے اصحاب کرام ؓ سے مشورہ کیا کہ آیا ہم ان قبائل کے پسماندگان پر حملہ کردیں جو قریش کی مدد کے لئے جمع ہوئے ہیں اور ان کو قیدی بنالیں، اگر وہ پھر بیٹھے رہے تو بدلہ لئے بغیر غم زدہ بیٹھے رہیں گے اور اگر وہ بچ نکلے تو وہ ایسی گردن ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے کاٹ دیا ہے۔۔۔ یا تمہارا خیال ہے کہ ہم بیت اللہ کا قصد جاری رکھیں، جو کوئی ہمیں روکنے کی کوشش کرے تو ہم اس سے جنگ کریں ؟ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا :” اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، ہم عمرہ کرنے کے لئے آئے ہیں، ہم کسی کے خلاف لڑنے کے لئے نہیں آئے۔ تاہم جو کوئی ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوا ہم اس سے ضرور لڑیں گے۔ “ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : ” تو پھر کوچ کرو “ ! پس صحابہ کرام نے کوچ کیا، ابھی وہ راستے ہی میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” خالد بن ولید قریش کے گھڑ سواروں کے ساتھ غمیم کے مقام پر پڑاؤ کیے ہوئے ہے اس لئے پہلو بچا کروائیں جانب کا راستہ اختیار کرو “ اللہ کی قسم ! خالد بن ولید کو صحابہ کرام کے نکل جانے کا پتہ تک نہ چلا، یہاں تک مسلمانوں کے لشکر کی گرد ان تک پہنچی تو مسلمانوں کی آمد کا ان کو علم ہوا تو وہ فوراً و قریش کو آگاہ کرنے کے لئے روانہ ہوا۔ اس دوران میں نبی اکرم ﷺ چلتے رہے یہاں تک کہ آپ اس گھاٹی میں پہنچ گئے۔ جہاں سے ہو کر مکہ کی طرف اترتے ہیں، تو آپ کی سواری بیٹھ گئی۔ صحابہ نے کہا : (حل حل) مگر اونٹنی بیٹھی رہی۔ صحابہ نے کہا : ” قصواء تھک کر بیٹھ گئی “ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” قصواء تھک کر نہیں بیٹھی اور نہ یہ اس کی عادت ہے بلکہ اس کو اس ہستی نے روک دیا ہے جس نے ہاتھ کو روکا تھا۔ “ پھر فرمایا :” اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ قریش مجھ سے جس چیز کا سوال کریں، جس میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حرام ٹھہرائی ہوئی چیزوں کی حرمت کا لحاظ رکھا ہو، میں ان کو وہ چیز ضرور عطا کردوں گا۔ “ پھر آپ نے اونٹنی کو جھڑکا، وہ فوراً جست لگا کر اٹھ کھڑی ہوئی، پس رسول اللہ ﷺ اس گھاٹی سے ایک طرف سے ہٹ کر روانہ ہوئے۔ یہاں تک کہ حدیبیہ کے کنویں کے پاس اتر پڑے جس میں بہت ہی تھوڑا پانی تھا۔ لوگ تھوڑا تھوڑا پانی لیتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے پانی ختم کردیا۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس پیاس کی شکایت کی۔ آپ نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکالا اور صحابہ سے کہا، کہ وہ اس تیر کو اس کنویں میں ڈال دیں۔ راوی کہتا ہے ” اللہ کی قسم ! اور لشکر اس کنویں سے سیراب ہوتا رہا یہاں تک کہ انہوں نے وہاں سے کوچ کیا۔ قریش آپ کی روانگی کا سن کر بہت گھبرائے۔ رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کرام میں سے کسی شخص کو ایلچی بنا کر بھیجنا چاہتے تھے چناچہ آپ نے عمر ؓ کو بلایا تاکہ ان کو قریش کی طرف بھیجیں۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا :” یا رسول اللہ ! ﷺ اگر مکہ میں مجھے کوئی تکلیف پہنچائی گئی تو بنو کعب بن لوی میں ایک بھی ایسا شخص نہیں جو میری خاطر ناراض ہو، اس لئے آپ حضرت عثمان ؓ کو بھیجئے، وہاں ان کا بہت بڑا قبیلہ ہے اور جو آپ چاہتے ہیں وہ آپ کا پیغام پہنچا دیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان ؓ کو بلایا اور ان کو سفیر بنا کر قریش کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ قریش کو کہہ دو کہ ہم لڑنے کے لئے نہیں آئے، ہم تو عمرہ کے لئے آئے ہیں اور انہیں اسلام کی دعوت دو “ نیز آپ نے حضرت عثمان ؓ کو حکم دیا کہ مکہ مکرمہ میں جو مومن مرد اور عورتیں ہیں وہ ان کے پاس بھی جائیں اور ان کو فتح کی خوشخبری دیں۔ نیز ان کو بتائیں کہ اللہ تعالیٰ عنقریب مکہ میں اپنے دین کو غالب کرے گا حتیٰ کہ یہاں ایمان کو چھپایا نہیں جائے گا۔ حضرت عثمان ؓ روانہ ہوئے، بلدح کے مقام پر ان کا گزر قریش کے پاس سے ہوا۔ قریش نے پوچھا ” عثمان ! کہاں کا ارادہ ہے ؟ “ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا :” مجھے رسول اللہ ﷺ نے بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں اللہ اور اسلام کی طرف دعوت دوں اور ہم تمہیں آگاہ کرتے ہیں کہ ہم لڑنے کے لئے نہیں آئے بلکہ عمرہ کرنے کے لئے آئے ہیں۔ “ انہوں نے کہا ” تم نے جو کہا، ہم نے سن لیا، اب جاؤ اپنا کام کرو “ ابان بن سعید اٹھا، اس نے حضرت عثمان ؓ کو مرحبا کہا، اپنے گھوڑے پر زین رکھی، حضرت عثمان ؓ کو گھوڑے پر سوار کرایا اور ان کو پناہ دی، ابان بن سعید حضرت عثمان ؓ کو اپنے ساتھ بٹھا کر مکہ آیا۔ حضرت عثمان ؓ کے واپس لوٹنے سے پہلے مسلمانوں نے کہا :” عثمان ؓ ہم سے پہلے بیت اللہ پہنچ کو طواف کریں گے۔ “ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” میرا خیال ہے وہ اس حالت میں کہ ہم یہاں محصور ہیں، بیت اللہ کا طواف نہیں کریں گے۔ “ صحابہ نے عرض کیا : ” یا رسول اللہ ! وہ بیت اللہ پہنچ گئے ہیں، انہیں کون سی چیز بیت اللہ کے طواف سے روک سکتی ہے ؟ “ آپ نے فرمایا : ” عثمان کے بارے میں میرا یہ گمان ہے کہ وہ کعبہ کا طواف اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک ان کے ساتھ ہم نہ کریں۔ “ مسلمان صلح کے معاملے میں مشرکین کے ساتھ گھل مل گئے۔ فریقین میں سے کسی شخص نے دوسرے فریق کے کسی آدمی کو پتھرمارا، بس معرکہ برپا ہوگیا فریقین نے ایک دوسرے پر تیر چلانے اور پتھر پھینکنے شروع کردیے دونوں فریق چلائے اور ہر فریق اپنے اپنے آدمیوں کے فعل پر مجبور تھا۔ رسول اللہ ﷺ تک حضرت عثمان ؓ کے قتل کی افواہ پہنچی تو آپ نے بیعت کے لئے صحابہ کرام ؓ کو طلب فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ درخت کے سائے میں تشریف فرما تھے مسلمان آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس بات پر بیعت کی کہ وہ آپ کو چھوڑ کر نہیں بھاگیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنا دست مبارک پکڑا اور فرمایا :” یہ عثمان ؓ کی طرف سے بیعت ہے۔ “ جب عثمان ؓ نے کہا :” میرے بارے میں تم نے بہت ہی برا گمان رکھا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر سال بھر بھی میں مکہ مکرمہ میں رہوں اور رسول اللہ ﷺ حدیبیہ کے مقام پر فروکش ہوں، تو میں اس وقت تک بیت اللہ کا طواف نہیں کروں گا جب تک کہ رسول اللہ ﷺ طواف نہ کرلیں۔ قریش نے مجھے بیت اللہ کا طواف کرنے کی دعوت دی تھی میں نے انکار کردیا۔ “ صحابۂ کرام ؓ نے کہا :” رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہم سے زیادہ علم رکھتے ہیں اور ہم سے زیادہ اچھا گمان رکھتے ہیں۔ “ حضرت عمر ؓ نے درخت کے نیچے بیعت کے لئے رسول اللہ ﷺ کا دست مبارک تھامے رکھا اور جد بن قیس کے سوا تمام مسلمانوں نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی اور حضرت معقل بن یسار ؓ آپ پر سے درخت کی ٹہنیاں اٹھائے رہے۔ ابو سنان اسدی ؓ پہلے شخص تھے جنہوں نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی سلمہ بن الاکوع ؓ نے تین مرتبہ آپ کے ہاتھ پر بیعت کی، ایک دفعہ ابتدا میں، پھر درمیان میں اور ایک دفعہ آخر میں۔ بیعت کا سلسلہ اسی طرح جاری تھا کہ بدیل بن ورقاء خزاعی بنو خزاعہ کے چند آدمیوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، تہامہ کی پوری وادی میں صرف خزاعی آپ کے خیر خواہ تھے، بدیل نے کہا :” میں بنو کعب بن لؤی اور عامر بن لؤی کو اس حال میں چھوڑ کر آرہا ہوں کہ وہ حدیبیہ کے چشموں پر اترے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ دودھ دینے والی اونٹنیاں بھی ہیں، وہ آپ ﷺ کے ساتھ لڑیں گے اور آپ کو بیت اللہ جانے سے روکیں گے۔ “ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” ہم کسی کے ساتھ لڑنے کے لئے نہیں آئے، ہم تو صرف عمرہ کرنے کے لئے آئے ہیں۔ جنگ نے قریش کو کمزور کردیا ہے اور ان کو نقصان پہنچایا ہے، اس صورت میں اگر وہ چاہیں تو میں ایک مدت کے لئے ان کے ساتھ صلح کرلوں گا، وہ میرے اور دوسرے لوگوں کے درمیان سے ہٹ جائیں، اگر وہ چاہیں تو اس دین میں داخل ہوجائیں جس میں لوگ داخل ہوئے ہیں، ورنہ آرام سے بیٹھیں اور اگر انہیں جنگ کے سوا کچھ منظور نہیں تو قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری زندگی ہے۔ میں اپنے اس دین پر ان سے ضرور لڑوں گا یہاں تک کہ میری گردن تن سے جدا ہوجائے، یا اللہ تعالیٰ اپنے دین کو نافذ کردے۔ “ بدیل نے عرض کیا :” میں آپ کی بات قریش تک پہنچا دوں گا۔ “ بدیل چلا گیا حتیٰ کہ وہ قریش کے پاس پہنچا اور ان سے کہنے لگا :” میں اس شخص کے پاس سے ہو کر آیا ہوں، میں نے اسے ایک بات کہتے سنا ہے۔ اگر آپ لوگ چاہیں تو میں وہ بات آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ “ قریش کے بیوقوف لوگوں نے کہا :” ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ تم ہمیں کچھ سناؤ “ مگر ان میں سے اصحاب رائے نے کہا :” ہاں بتاؤ تم نے اس سے کیا سنا ہے ؟ “ بدیل نے کہا :” میں نے اس کو یہ کچھ کہتے سنا ہے۔ “ عروہ بن مسعود ثقفی نے کہا :” اس شخص نے تمہارے سامنے ایک اچھی بات پیش کی ہے، اس کو قبول کرلو اور مجھے اس کے پاس جانے دو “ قریش نے کہا :” ہاں تم اس کے پاس جاؤ۔ “ عروہ بن مسعود ثقفی آپ کے ساتھ مذاکرات کرنے کی غرض سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے عروہ بن مسعود سے بھی وہی بات کہی جو بدیل سے کہی تھی۔ اس پر عروہ بن مسعود نے کہا ” اے محمد ! ﷺ کیا تم قوم ہی کی جڑ کاٹو گے، کیا تم نے کسی عرب کے بارے میں سنا ہے کہ اس نے تم سے پہلے اپنی قوم کو نیست و نابود کیا ہو ؟ اگر کوئی دوسری بات ہوئی تو اللہ کی قسم ! میں کچھ ایسے چہرے اور اس طرح کے لوگ دیکھ رہا ہوں جو تجھے چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ “ حضرت ابوبکر ؓ نے اس سے کہا :” تو ‘ لات کی شرم گاہ چوستارہ، کیا ہم رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے ؟ “ عروہ بن مسعود نے پوچھا :” یہ کون ہے ؟ “ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا :” میں ابوبکر ہوں۔ “ عروہ بن مسعود نے کہا :” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تیرا مجھ پر ایک احسان نہ ہوتا جس کا بدلہ میں ابھی تک نہیں اتار سکتا تو میں تجھے اس کا جواب دیتا۔ “ اس نے رسول اللہ ﷺ سے بات چیت شروع کی۔ جب وہ بات کرتا تو آپ کی ریش مبارک کو چھوتا، حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ آپ کے سر پر کھڑے ہوئے تھے، ان کے ہاتھ میں تلوار تھی اور سر پر خود پہن رکھا تھا۔ جب بھی عروہ بن مسعود اپنا ہاتھ آپ کی ریش مبارک کی طرف بڑھاتا، تو مغیرہ ؓ اپنی تلوار کا نعل اس کے ہاتھ پر مارتے اور کہتے :” اپنے ہاتھ کو رسول اللہ ﷺ کی ریش مبارک سے دور رکھو۔ “ عروہ بن مسعود نے اپنا سراٹھا کر پوچھا :” یہ کون ہے ؟ “ مغیرہ ؓ نے کہا :” میں مغیرہ بن شعبہ ہوں۔ “ عروہ بن مسعود نے کہا :” اے بےوفا شخص ! کیا میں تیری بےوفائی کے انتقام کی کوشش میں نہیں ہوں ؟ “ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ ایام جاہلیت میں کچھ لوگوں کے ساتھ مصاحبت رکھتے تھے، پس مغیرہ بن شعبہ ؓ نے ان لوگوں کو قتل کردیا ان کا مال لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام لے آئے۔ آپ نے فرمایا :” میں تمہارا اسلام لانا تو قبول کرتا ہوں، لیکن مال کے ساتھ میرا کوئی تعلقی نہیں۔ “ پھر عروہ بن مسعود دیر تک اصحاب رسول ﷺ کو دیکھتا رہا، اللہ کی قسم ! جب کبھی نبی اکرم ﷺ نے تھوک پھینکا تو کسی نہ کسی شخص نے اسے اپنے ہاتھ پر لیا اور اسے اپنے جسم اور چہرے پر مل لیا آپ کوئی حکم دیتے تو صحابہ اس کی تعمیل کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے، جب آپ وضو فرماتے تو صحابہ آپ کے وجو کے مستعمل پانی پر گویا لڑتے تھے، جب آپ گفتگو فرماتے تو صحابہ کرام آپ کے پاس اپنی آوازوں کی پست کرلیتے تھے، آپ کی تعظیم کی وجہ سے وہ آپ ﷺ کی طرف نظریں اٹھا کر نہیں دیکھتے تھے۔ عروہ بن مسعود اپنے ساتھیوں میں واپس آیا اور ان سے کہنے لگا :” اے لوگو ! میں کسریٰ ، قیصر اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں گیا ہوں، میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا جس کے مصاحبین اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد ﷺ کے اصحاب ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم ! محمد ﷺ جب بھی تھوک پھینکتے تو کوئی نہ کوئی شخص اپنے ہاتھ پر لے کر اپنے جسم اور چہرے پر مل لیتا تھا۔ جب محمد ﷺ کوئی حکم دیتے تو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تعمیل کی کوشش کرتے، جب محمد ﷺ وضو کرتے تو وضو کے مستعمل پانی کے حصول کے لئے ایک دوسرے سے جھگڑتے تھے۔ جب محمد ﷺ گفتگو کرتے تو لوگ اپنی آوازوں کو پست کرلیتے وہ محمد ﷺ کی تعظیم کے طور پر ان کی طرف نظریں اٹھا کر نہیں دیکھتے تھھے۔ بیشک انہوں نے ایک نہایت اچھی بات تمہارے سامنے پیش کی ہے اور اس پر زور دیا ہے کہ تم اسے قبول کرلو۔ “ بنو کنانہ میں سے ایک شخص نے کہا :” مجھے اس کے پاس جانے دو ۔ “ قریش نے کہا ” تم اس کے پاس جاؤ۔ “ جب یہ شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” یہ فلاں شخص ہے اور اس کا تعلق ایسی قوم سے ہے جو قربانی کے جانوروں کا بہت احترام کرتے ہیں، تم قربانی کے جانور اس کے پاس لے کر آؤ، پس لوگ قربانی کے جانور اس کے پاس لے کر آئے اور تلبیہ کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔ جب اس نے یہ صورت حال دیکھی تو کہنے لگا :” سبحان اللہ ! ان لوگوں کو بیت اللہ سے روکنا مناسب نہیں۔ “ پھر وہ اپنے لوگوں کی طرف واپس آیا اور ان سے کہا :” میں نے قربانی کے جانوروں کو دیکھا ہے کہ ان کو ہار پہنائے گئے ہیں اور ان کا اشعار کیا گیا ہے میری رائے ہے کہ ان کو بیت اللہ سے نہ روکا جائے۔ “ پھر مکرز بن حفص کھڑا ہوا اور نے کہا :” مجھے اجازت دو کہ میں محمد ﷺ کے پاس جاؤں “ جب مکرز ان کے پاس آیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” یہ مکرز بن حفص ہے اور یہ فاسق و فاجر شخص ہے۔ “ مکرز بن حفص نے رسول اللہ ﷺ سے گفتگو شروع کی۔ ابھی وہ گفتگو کر ہی رہا تھا کہ سہیل بن عمرو آگیا نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے تمہارا معاملہ آسان فرمادیا۔ “ سہیل بن عمرو نے کہا :” آپ ہمارے اور اپنے درمیان صلح کا معاہدہ لکھ دیجئے “ رسول اللہ ﷺ نے کاتب کو بلایا اور اس سے فرمایا :” لکھو (بسم اللہ الرحمن الرحیم) “۔ سہیل بن عمرو نے کہا :” رہا رحمن، تو اللہ کی قسم ! ہم نہیں جانتے کہ رحمن کیا ہے ؟ بلکہ لکھو (باسمک اللھم) جیسا کہ تو لکھا کرتا تھا۔ “ مسلمانوں نے کہا :” اللہ کی قسم ! ہم تو (بسم اللہ الرحمن الرحیم) ہی لکھیں گے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (باسمک اللھم) ہی لکھ دو ” پھر فرمایا :” لکھو، یہ وہ تحریر ہے، جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے صلح کی۔ “ اس پر سہیل بن عمرو نے اعتراض کیا ” اگر ہم اعتراف کرتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو بیت اللہ کی زیارت سے روکتے نہ آپ کے خلاف جنگ کرتے۔ بلکہ ” محمد بن عبد اللہ “ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :” بیشک میں اللہ کا رسول ہوں اگرچہ تم نے میری تکذیب کی ہے، تاہم ” محمد بن عبد اللہ۔ “ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ” اس بات پر صلح ہے کہ تم بیت اللہ اور ہمارے درمیان سے ہٹ جاؤ گے اور ہم طواف کریں گے۔ “ سہیل بن عمرو نے کہا :” اللہ کی قسم ! ایسا نہیں ہوگا، کہیں عرب یہ نہ کہیں کہ ہمیں مجبور کردیا گیا، البتہ آپ آئندہ سال طواف کریں۔ “ پس یہی لکھ دیا گیا۔ سہیل بن عمرو نے کہا :” یہ اس بات پر صلح نامہ ہے کہ اگر ہمارا کوئی شخص (بھاگ کر) تمہارے پاس آجائے تو تم اسے واپس کردو گے خواہ تہ تمہارے دین ہی پر کیوں نہ ہو۔ “ مسلمانوں نے کہا :” سبحان اللہ ! جو شخص مسلمان ہو کر آیا ہو اسے کیسے مشرکین کے پاس واپس بھیج دیا جائے گا، ابھی وہ یہ گفتگو کر ہی رہے تھے کہ ابو جندل بن سہیل ؓ اپنی بیڑیوں میں بڑی مشکل سے چلتے ہوئے، نشیب مکہ سے نکلے اور اپنے آپ کو صحابہ کرام ؓ کے درمیان ڈال دیا، سہیل بن عمرو نے کہا :” اے محمد ! ﷺ یہ پہلی شرط ہے جس پر میں نے تمہارے ساتھ صلح کی ہے، ابو جندل کی واپس کردو۔ “ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” ابھی ہم نے تحریر ختم نہیں کی۔ “ سہیل بن عمرو نے کہا :” اللہ کی قسم ! اگر یہ بات ہے تو میں تمہارے ساتھ کسی بات پر کبھی بھی صلح نہیں کروں گا۔ “ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :’ مجھے اس کی اجازت دے دو ۔ “ سہیل بن عمرو نے کہا :” میں ہرگز اس کی اجازت نہیں دوں گا۔ “ آپ نے فرمایا :” کیوں نہیں ! اجازت دے دو ۔ “ سہیل بن عمرو نے کہا :” میں اجازت نہیں دوں گا۔ “ مکرز نے کہا :” میں اجازت دیتا ہوں۔ “ ابو جندل ؓ نے کہا :” اے مسلمانو ! کیا مجھے مشرکین کے پاس واپس بھیج دیا جائے گا درآنحالیکہ میں مسلمان ہو کر تمہارے پاس آیا ہوں، کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ مجھے کن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے ؟ “۔۔۔ حضرت ابو جندل ؓ کو اللہ کے راستے میں سخت عذاب سے دو چار کیا گیا تھا۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں مجھے اسلام کی حقانیت پر، اس دن کے سوا، کبھی شک نہیں ہوا، میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : ” یا رسول اللہ ! کیا آپ اللہ کے نبی نہیں ہیں ؟ “ آپ نے فرمایا :” کیوں نہیں ! “ میں نے عرض کیا :” کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں ؟ “ آپ نے فرمایا :” کیوں نہیں۔ “ میں نے عرض کیا :” میں اللہ کا رسول ہوں، وہی میرا مددگار ہے، میں اس کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ “ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” کیا میں نے تمہیں یہ خبر دی تھی کہ تم اسی سال آکر بیت اللہ کا طواف کرو گے ؟ “ میں نے عرض کیا :” نہیں “۔ آپ نے فرمایا :” تم ضرور بیت اللہ کی زیارت اور طواف کروگے۔ “ حضرت عمر ؓ کہتے ہیں : اس کے بعد میں حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آیا اور ان سے بھی وہی کچھ کہا جو رسول اللہ ﷺ سے کہا تھا اور انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو رسول اللہ ﷺ نے دیا تھا اور مزید کہا :” مرتے دم تک ان کے امرو نہی کی اطاعت کی، اللہ کی قسم ! وہ حق پر ہیں “ حضرت عمر فرماتے ہیں :” میں نے اس سوال جواب کی گستاخی کی تلافی کے لئے کفارے کے طور پر بہت اعمال کئے۔ “ جب رسول اللہ ﷺ صلح نامہ کی تحریر سے فارغ ہوئے تو فرمایا :” اٹھو قربانی کرو اور اپنا سر منڈاؤ۔ “ اللہ کی قسم ! کوئی شخص نہ اٹھا حتیٰ کہ آپ نے تین مرتبہ کہا۔ جب ان میں سے کوئی آدمی نہ اٹھا تو آپ اٹھ کرام سلمہ ؓ کے خیمہ میں چلے گئے، جو کچھ لوگوں کی طرف سے پیش آیا تھا حضرت ام سلمہ ؓ سے کہہ سنایا۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے عرض کیا :” یا رسول اللہ ! کیا آپ واقعی یہی چاہتے ہیں ؟ اگر یہ بات ہے تو آپ باہر تشریف لے جائیے اور اس وقت تک کسی سے بات نہ کیجئے جب تک کہ آپ اپنی قربانی کو ذبح نہ کرلیں، پھر حجام کو بلائیے اور وہ آپ کو سرمونڈ دے۔ “ نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوئے اور باہر نکل گئے، آپ نے کسی سے گفتگو نہ فرمائی، جب تک کہ یہ سب کچھ نہ کرلیا۔ آپ نے اپنے قربانی کے جانور ذبح کیے پھر حجام کو بلوایا، اس نے آپ کا سر مونڈا۔ جب صحابہ کرام نے یہ دیکھا تو وہ اٹھے اور انہوں نے بھی قربانی کے جانور ذبح کیے اور ایک دوسرے کا سر مونڈنے لگے۔ پھر ازدحام کی وجہ سے ایسے لگتا تھا کہ کہیں وہ ایک دوسرے کو قتل نہ کردیں۔ پھر مومن خواتین آئیں پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی : (یایھا الذین امنوا اذا جاء کم المومنت مھجرت فامتحنوھن اللہ اعلم بایمانھن فان علمتموھن مومنت فلا ترجعو ھن الی الکفار لاھن حل لھم ولا ھم یحلون لھن واتوھم ما انفقواولا جناح علیکم ان تنکحوھن اذا اتیتموھن اجورھن ولا تمسکو بعصم الکوافر) (الممتحنۃ : 60/10) ” اے ایمان والو ! جب تمہارے پاس مومن عورتیں آئیں تو ان کو آزما لیا کرو، ان کے ایمان کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اگر تمہیں معلوم ہوجائے کہ وہ مومن ہیں تو انہیں کفار کی طرف مت لوٹاؤ۔ وہ ان کفار کے لئے حلال نہ کفار ان کے لئے حلال ہیں اور انہوں نے جو کچھ ان پر خرچ کیا ہے انہیں دے دو ، اور تم پر کوئی حرج نہیں اگر تم ان کے ساتھ مہر مقرر کرنے کے بعد نکاح کرلو اور کافر عورتوں کو اپنے پاس نہ رکھو۔ “ حضرت عمر ؓ نے اس روز اپنی دو بیویوں کو طلاق دی تھی جو شرک کی حالت میں ان کے پاس تھیں۔ ان میں سے ایک کے ساتھ امیر معاویہ ؓ نے (اس وقت تک وہ ایمان نہیں لائے تھے) اور دوسری کے ساتھ صفوان بن امیہ نے نکاح کرلیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ واپس مدینہ لوٹ آئے، واپسی پر اللہ تعالیٰ نے آپ پر سورة فتح نازل فرمائی۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا :” یا رسول اللہ ! کیا یہ فتح ہے ؟ “ آپ نے فرمایا :” ہاں ! “ صحابۂ کرام ؓ نے عرض کیا : ” یا رسول اللہ ! آپ کو مبارک ہو، ہمارے لئے کیا حکم ہے ؟ “ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں (ھو الذین انزل السکینۃ فی قلوب المومنین) (الفتح :4/48)
Top