Tafseer-e-Saadi - Al-Maaida : 49
وَ اَنِ احْكُمْ بَیْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ وَ احْذَرْهُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْكَ عَنْۢ بَعْضِ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَیْكَ١ؕ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّصِیْبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِهِمْ١ؕ وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ
وَاَنِ : اور یہ کہ احْكُمْ : فیصلہ کریں بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان بِمَآ : اس سے جو اَنْزَلَ : نازل کیا اللّٰهُ : اللہ وَلَا تَتَّبِعْ : نہ چلو اَهْوَآءَهُمْ : ان کی خواہشیں وَاحْذَرْهُمْ : اور ان سے بچتے رہو اَنْ : کہ يَّفْتِنُوْكَ : بہکا نہ دیں عَنْ : سے بَعْضِ : بعض (کسی) مَآ : جو اَنْزَلَ : نازل کیا اللّٰهُ : اللہ اِلَيْكَ : آپ کی طرف فَاِنْ : پھر اگر تَوَلَّوْا : وہ منہ موڑ جائیں فَاعْلَمْ : تو جان لو اَنَّمَا : صرف یہی يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يُّصِيْبَهُمْ : انہیں پہنچادیں بِبَعْضِ : بسبب بعض ذُنُوْبِهِمْ : ان کے گناہ وَاِنَّ : اور بیشک كَثِيْرًا : اکثر مِّنَ : سے النَّاسِ : لوگ لَفٰسِقُوْنَ : نافرمان
اور (ہم پھر تاکید کرتے ہیں کہ) جو (حکم) خدا نے نازل فرمایا ہے اسی کے مطابق تم فیصلہ کرنا اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا اور ان سے بچتے رہنا کہ کسی حکم سے جو خدا نے تم پر نازل فرمایا ہے یہ کہیں تم کو بہکانہ دیں۔ اگر یہ نہ مانیں تو جان لو کہ خدا چاہتا ہے کہ ان کے بعض گناہوں کے سبب ان پر مصیبت نازل کرے اور اکثر لوگ تو نافرمان ہیں۔
آیت 49 (وانزلنا الیک الکتب) ” اور اتاری ہم نے آپ کی طرف کتاب “ یعنی قرآن عظیم جو سب سے افضل اور جلیل ترین کتاب ہے (بالحق) ” حق کے ساتھ “ یعنی ہم نے اسے حق کے ساتھ نازل کیا ہے یہ کتاب اپنی اخبار اور اوامرونواہی میں حق پر مشتمل ہے (مصدقا لما بین یدیہ من الکتب ) ” اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے “ کیونکہ یہ کتب سابقہ کی صداقت کی گواہی دیتی ہے، ان کی موافقفت کرتی ہے، اس کی خبریں ان کی خبروں کے مطابق اور اس کے بڑے بڑے قوامنین ان کے بڑے بڑے قوانین کے مطابق ہیں۔ ان کتابوں نے اس کتاب کے بارے میں خبر دی ہے۔ پس اس کا وجود ان کتب سابقہ کی خبر کا مصداق ہے (ومھیمنا علیہ) ” اور ان کے مضامین پر نگہبان ہے “ یعنی یہ کتاب ان امور پر مشتمل ہے جن امور پر سابقہ کتب مشتمل تھیں، نیز مطالب الہیہ اور اخلاق نفسیہ میں بعض اضافے ہیں۔ یہ کتاب ہر اس حق بات کی پیروی کرتی ہے جو ان کتابوں میں آچکی ہے اور اس کی پیروی کا حکم اور اس کی ترغیب دیتی ہی اور حق تک پہنچانے کے بہت سے راستوں کی نشاندہی کرتی ہے یہ وہ کتاب ہے جس میں حکمت، دانائی اور احکام ہیں، جس پر کتب سابقہ کو پیش کیا جاتا ہے، لہٰذا جس کی صداقت کی یہ گواہی دے وہ مقبول ہے جس کو یہ رد کر دے وہ مردد ہے، کیونکہ وہ تحریف اور تبدیلی کا شکار ہوچکی ہے۔ ورنہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی طر سے ہوتی تو یہ اس کی مخالفت نہ کرتی۔ (فاحکم بینھم بما انزل اللہ) ” پس ان کے درمیان اس کے موافق فیصلہ کریں جو اللہ نے اتارا “ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ ﷺ پر جو حکم شرعی نازل فرمایا ہے اس کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے اتارا “ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ ﷺ پر جو حکم شرعی نازل فرمایا ہے اس کے مطابق فصلہ کیجیے (ولا تتبع اھوآء ھم عما جآءک من الحق) ” اور آپ پاس جو حق آیا، اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں “ یعنی ان کی حق کے خلاف خواہشات فاسدہ کی اتباع کو اس حق کا بدل نہ بنائیں جو آپ ﷺ کے پاس آچکا ہے، ورنہ آپ اعلیٰ کے بدلے ادنی ٰ کو لیں گے۔ (لکل جعلنا منکم) ” تم میں سے ہر ایک کو دیا ہم نے “ یعنی اے قومو ! (شرعہ ومنھاجا) ” ایک دستور اور راہ “ یعنی تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک راستہ اور طریقہ مقرر کردیا ہے۔ یہ شریعتیں جو امتوں کے اختلاف کے ساتھ بدل جاتی رہی ہیں، زمان و مکان اور احوال کے تغیر و تبدل کے مطابق ان شرائع میں تغیر و تبدل واقع ہوتا رہا ہے اور ہر شریعت اپنے نفاذ کے وقت عدل کی طرف راجع رہی ہے۔ مگر بڑے بڑے اصول جو ہر زماں و مکاں میں مصلحت اور حکمت پر مبنی ہوتے ہیں کبھی نہیں بدلتے، وہ تمام شرائع میں مشروع ہوتے ہیں۔ (ولو شآء اللہ لجعلکم امۃ واحدۃ) ” اور اگر اللہ چاہتا تو تم کو ایک ہی امت بنا دیتا “ یعنی ایک شریعت کی پیروی میں ایک امت بنا دیتا کسی متقدم اور متاخرامت میں کوئی اختلاف نہ ہوتا (ولکن لیبلوکم فی مآاتکم) ” لیکن وہ تمہیں آزمانا چاہتا ہے اپنے دیئے ہوئے حکموں میں “ پس وہ تمہیں آزمائے اور دیکھے کہ تم کیسے کام کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہر قوم کو آزماتا ہے اور ہر قوم کو اس کے احوال اور شان کے لائق عطا کرتا ہے، تاکہ قوموں کے درمیان مقابلہ رہے۔ پس ہر قوم دوسری قوم سے آگے بڑھنے کی خواہشمند ہوتی ہے اس لئے فرمایا : (فاستبقوا الخیرت) ” نیک کاموں میں جلدی کرو۔ “ ینی نیکیوں کے حصول کے لئے جلدی سے آگے بڑھو اور ان کی تکمیل کرو، کیونکہ وہ نیکیاں جو فرائض و مستحبات، حقوق اللہ اور حقوق العباد پر شمتمل ہوتی ہیں، ان کا فاعل اور ان دو امور کو مدنظر کھے بغیر کسی سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ (1) جب نیکی کرنے کا وقت آجائے اور اس کا سبب ظاہر ہوجائے تو فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے جلدی سے اس کی طرف بڑھنا۔ (2) اور حکم کے مطابق اسے کامل طور پر ادا کرنے کی کوشش کرنا۔ اس آیت کریمہ سے اس امر پر استدلال کیا جاتا ہے کہ نماز کو اول وقت پڑھنے کی کوشش کی جائے، نیز یہ آیت کریمہ اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ بندے کو صرف نماز وغیرہ اور دیگر امور واجبہ کی ادائیگی پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ مقدور بھر مستحباب پر بھی عمل کرے، تاکہ واجبات کی تکمیل ہو اور ان کے ذریعے سے سبقت حاصل ہو۔ (الی اللہ مرجعکم جمعاً ” تم سب کا لوٹنا اللہ کی کی طرف ہے “ تمام امم سابقہ ولاحقہ کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو ایک ایسے روز اکٹھا کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں (فینبتکم بما کنتم فیہ تختلفون) ’ پس وہ تمہیں ان امور کی بابت خبر دے گا جن میں تم آپس میں اختلاف کرتے تھے “ یعنی جن شرائع اور اعمال کے بارے میں تمہارے درمیان اختلاف تھا۔ چناچہ وہ اہل حق اور نیک عمل کرنے والوں کو ثواب سے نوازے گا اور اہل باطل اور بدکاروں کو سزا دے گا۔ (وان احکم بینھم بما انزل اللہ) ” اور ان کے درمیان اس کے موافق فیصلہ فرمائیں جو اللہ نے اتارا “ کہ جاتا ہے کہ یہی وہ آیت کریمہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد (فاحکم بینھم او اعرض عنھم) ” ان کے درمیان فصلہ کریں یا اس سے روگردانی کریں “ کو منسوخ کرتی ہے۔ صحیح رائے یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ اس مذکورہ آیت کو منسوخ نہیں کرتی، پہلی آیت دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ان کے درمیان فیصلہ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا اور اس کا سبب یہ تھا کہ وہ حق کی خاطر فصلہ کروانے کا قصد نہیں رکھتے تھے اور یہ (دوسری) آیتک ریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جب آپ ﷺ ان کے درمیان فیصلہ کریں، تو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت، یعنی قرآن اور سنت کے مطابق فیصلہ کریں۔ یہی وہ انصاف ہے جس کے بارے میں گزشتہ صفحات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وان حکمت فاحکم بینھم بالقسط) ” اگر آپ ان کے درمیان فیصلہ کیں تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں۔ “ یہ آیت کریمہ عدل کی توضیح و تبین پر دلالت کرتی ہے، نیز یہ کہ عدل کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے احکام ہیں جو انتہائی عدل و انصاف پر مبنی اصولوں پر مشتمل ہیں اور جو کچھ ان احکام کے خلاف ہے، وہ سراسر ظلم و جور ہے۔ (ولاتبع اھوآءھم ) ” اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں “ شدت تحذیر کی خاطر اللہ تعالیٰ نے بتکرار آپ ﷺ کو ان کی خواہشات کی پیروی کرنے سے روکا ہے۔ نیز وہ آیت حکم اور فتویٰ کے مقام پر ہے اور اس میں زیادہ وسعت ہے اور یہ صرف حکم کے مقام پر ہے۔ دونوں آیات کا مفاد یہ ہے کہ ضروری ہے کہ ان کی خلاف حق خواہشات کی پیروی نہ کی جائے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (واحذرھم ان یفتنوک عن بعض ما انزل اللہ الیک) ” ؁ ور بچتے رہیں ان سے، اس بات سے کہ وہ کہیں آپ کو بہکانہ دیں کسی ایسے حکم سے جو اللہ نے آپ کی طرف اتارا “ یعنی ان کی فریب کاریوں سے بچیے نیز انے سے بچیے کہ وہ آپ کو فتنے میں ڈال کر آپ ﷺ کو کسی ایسی چیز سے نہ روک دیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف نازل فرمائی ہے۔ پس ان کی خواہشات کی پیروی، حق واجب کو ترک کرنے کا باعث بنتی ہے جبکہ اتباع حق فرض ہے۔ (فان تولوا ) ” پس اگر وہ نہ مانیں “ یعنی اگر وہ آپ کی اتباع اور حق کی پیروی سے روگردانی کریں (فاعلم) ” تو جان لیجیے “ کہ یہ روگردانی ان کے لئے سزا ہے (انما یرید اللہ ان یصیبھم ببعض ذنوبھم) ” اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان کو ان کے گناہوں کے سبب کوئی سزا پہنچائے “ کیونکہ گناہوں کے لئے دنیا و آخرکت میں سزائیں مقرر ہیں اور سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کو آزمائش میں مبتلا کر دے اور اتباع رسول کے ترک کو اس کے لئے مزین کر دے اور اس کا باعث اس کا فسق ہوتا ہے (وان کثیراً من الناس لفسقون) ” اور اکثر لوگ نافرمان ہیں “ یعنی ان کی فطرت اور طبیعت میں فسق، نیز اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت و اتباع سے خروج ہے۔ (افحکم الجاھلیۃ یبغون) ” اب کیا وہ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں ؟ “ یعنی کیا وہ کفار کی دوستی طلب کر کے اور آپ سے اعرضا کر کے جاہلیت کے فیصلے چاہتے ہیں ؟ ہر وہ فیصلہ جو اس چیز کے خلاف ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمایا وہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں ؟ ہر وہ فیصلہ جو اس چیز کے خلاف ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمایا وہ جاہلیت کا فیصلہ ہے۔ تب اس طرح صرف دو قسم کے فصلے ہیں۔ (1) اللہ او اس کے رسول ﷺ کا فیصلہ (2) جاہلیت کا فیصلہ پس جو کوئی اللہ اور رسول ﷺ کے فیصلوں سے منہ موڑتا ہے تو وہ دوسری قسم کے فیصلوں میں مبتلا ہوجاتا ہے جو جہالت، ظلم اور گمراہی پر مبنی ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان فیصلوں کو جاہلیت کی طرف مضاف کیا ہے۔ رہے اللہ تعالیٰ کے فیصلے تو وہ علم، عدل و انصاف، نور اور ہدایت پر مبنی ہوتے ہیں۔ (ومن احسن من اللہ حکماً لقوم یوفنون) ” اور اللہ سے بہتر کون ہے فیصلہ کرنے والا، اس قوم کے لئے جو یقین رکھتی ہے ‘ صاحب ایقان وہ ہے جو اپنے یقین کی بنیاد پر دونوں قسم کے فیصلوں کے درمیان فرق کو پہچانتا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں میں موجود حسن اور خوبصورتی میں امتیاز کرسکتا ہو اور عقلاً اور شرعاً ان کی تباع کو لازم قرار دیتا ہو اور یقین سے مراد وہ علم کامل و تام ہے جو عمل کا موجب ہوتا ہے۔
Top