Tafseer-e-Saadi - Adh-Dhaariyat : 15
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۙ
اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ : بیشک متقی (جمع) فِيْ جَنّٰتٍ : باغات میں وَّعُيُوْنٍ : اور چشمے
بیشک پرہیزگار بہشتوں اور چشموں میں (عیش کر رہے) ہوں گے
اللہ تبارک و تعالیٰ متقین کے ثواب اور ان کے ان اعمال کا ذکر فرماتا ہے جن کے باعث انہیں یہ ثواب حاصل ہوا۔ (ان المتقین) یعنی وہ لوگ جن کا شعار تقویٰ اور ان کا اوڑھنا بچھونا اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے (فی جنت) ان باغات میں ہوں گے جو مختلف انواع کے درختوں اور میوں پر مشتمل ہوں گے، جن کی نظیر اس دنیا میں ملتی ہے اور ایسے بھی ہوں گے جن کی نظیر اس دنیا میں نہیں ملتی۔ ان جیسا میوہ آنکھوں نے کبھی دیکھا ہوگا نہ کانوں نے سنا ہوگا اور نہ بندوں کے تصور میں کبھی آیا ہوگا۔ (وعیون) وہ بہتے ہوئے چشموں میں ہوں گے، ان چشموں سے ان باغات کو سیراب کیا جائے گا اور اللہ کے بندے ان چشموں سے پانی پئیں گے اور ان سے (چھوٹی چھوٹی) نہریں نکالیں گے۔ (اخذین ما انتھم ربھم) ” ان کا رب انہیں جو کچھ دے گا وہ اسے لے لیں گے۔ “ اس میں اس معنیٰ کا احتمال ہے کہ اہل جنت کا آقا، ان کی نعمتوں کے بارے میں تمام آرزوئیں پوری کرے گا اور وہ اپنے آقا سے راضی ہو کر یہ نعمتیں قبول کریں گے، اس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی، ان کے نفوس خوش ہوں گے، وہ ان کو بدلنا چاہیں گے نہ اس سے منتقل ہونے کی خواہش کریں گے۔ (جنت میں) ہر شخص کو اتنی نعمتیں عطا ہوں گی کہ وہ اس سے زیادہ طلب نہیں کرے گا۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ متفین کا یہ وصف دنیا کے اندر ہو یعنی اللہ تعالیٰ دنیا کے اندر جو اوامرونواہی ان کو عطا کرتا ہے وہ نہایت خوش دلی، انشراح صدر کے ساتھ، اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے اور بہترین طریقے سے ان پر عمل کرتے ہوئے انہیں قبول کرتے ہیں اور جن امور سے اللہ تعالیٰ نے ان کر روکا ہے وہ اس سے پوری طرح رک جاتے ہیں۔ پس جن کو اللہ نے اوامر ونواہی عطا کیے ہیں، یہ سب سے بڑا عطیہ ہے اور اس کا حق یہ ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرتے ہوئے، اطاعت کے جذبے کے ساتھ قبول کیا جائے۔ پہلا معنی سیاق کلام کے ساتھ زیادہ مطابقت رکھتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (آگے چل کر) ان الفاظ میں دنیا کے اندر ان کے وصف اور ان کے اعمال کا ذکر کیا ہے۔ (انھم کانو قبل ذلک) یعنی اس وقت سے پہلے، جب انہیں جنت کی نعمتیں حاصل ہوں گی (محسنین) ” وہ نیکوکار تھے۔ “ یہ ان کی اپنے رب کی عبادت میں ” احسان “ کو شامل ہے یعنی وہ اپنے رب کی عبادت اس طرح کرتے تھے کہ وہ اسے دیکھ رہے ہیں، اگر وہ اسے دیکھنے کی کیفیت پیدا نہ کرسکتے تو یہ کیفیت لئے ہوئے ہوتے تھے کہ ان کا رب انہیں دیکھ رہا ہے۔ نیز یہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر بھی احسان کو شامل ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اپنے مال، علم، جاہ، خیر خواہی، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، نیکی اور بھلائی کے مختلف طریقوں سے فائدہ پہنچانا اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔ حتیٰ کہ اس میں، نرم کلام، غلاموں، بہائم، مملوکہ اور غیر مملوکہ کے ساتھ حسن سلوک بھی داخل ہے۔ خالق کی عبادت میں احسان کی بہترین نوع، تہجد کی نماز ہے جو اخلاص اور قلب ولسان کی موافقت پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے فرمایا : (کانو) یعنی نیکوکار (قلیلا من الیل ما یھجعون) ان کی راتوں کی نیند بہت کم ہوتی تھی۔ رات کے اکثر حصے میں نماز قراءت، دعا، اور آہ وزاری کے ذریعے سے اپنے رب کے حضور جھکے رہتے تھے۔ (وبالاسحار) طلوع فجر سے تھوڑا سا پہلے (ھم یستغرون) وہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے تھے۔ وہ اپنی نماز کو طلوع سحر کے وقت تک لمبا کرتے تھے۔ پھر قیام اللیل کے بعد بیٹھ کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتے تھے۔ سحر کے وقت استغفار میں ایسی فضیلت اور خاصیت ہے جو کسی اور وقت استغفار کرنے میں نہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان و اطاعت کے وصف میں فرمایا : (والمستغفرین بالاسحار) (ال عمران : 3/17) ” اور اوقات سحر میں استغفار کرنے والے۔ “ (وفی اموالھم حق) ان کے اموال میں حق واجب اور حق مستحب ہے (للسائل والمحروم) یعنی ان محتاجوں کے لئے جو لوگوں سے سوال کرتے ہیں اور ان محتاجوں کے لئے جو لوگوں سے سوال نہیں کرتے۔
Top