Tafseer-e-Saadi - Adh-Dhaariyat : 24
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُكْرَمِیْنَۘ
هَلْ اَتٰىكَ : کیا آئی تمہارے پاس حَدِيْثُ : بات (خبر) ضَيْفِ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم کے مہمان الْمُكْرَمِيْنَ : معزز
بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہونچی ہے ؟
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (ھل اتک) کیا آپ کے پاس نہیں پہنچی (حدیث ضیعف ابراہیم المکرمین) ” ابراہیم کے معزز مہمانوں کی بات۔ “ اور ان کی عجیب و غریب خبر، یہ ان فرشتوں کی طرف اشارہ ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط ( علیہ السلام) کی قوم کو ہلاک کرنے کے لئے بھیجا تھا اور انہیں حکم دیا تھا کہ وہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے پاس سے ہو کر جائیں چناچہ وہ مہمانوں کی شکل میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ (اذ دخلو علیہ فقالوا سلما قال) ” جب وہ ان کے پاس آئے تو انہوں نے سلام کیا تو انہوں نے کہا :“ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے ان کو سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا : (سلم) یعنی تم پر بھی سلام ہو (قوم منکرون) تم اجنبی لوگ ہو، میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے اپنا تعارف کراؤ، آپ کو ان کا تعارف اس کے بعد ہی ہوا اسی لئے وہ چپکے چپکے جلدی سے گھر گئے تاکہ ان کی خدمت میں ضیافت کا سامان پیش کریں (فجاء بعجل سمین۔ فقربہ الیھم) اور خوب موٹا (بھنا ہوا) بچھڑا لے آئے اور ان کے سامنے کھانے کے لئے پیش کیا (قال الا تاکلون۔ فاوجس منھم خیفۃ) حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے کہا : تم کیوں نہیں کھاتے ؟ اور جب ابراہیم ( علیہ السلام) نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے تو آپ کو ان سے خوف محسوس ہوا۔ (قالو الا تخف) ” انہوں نے کہا : خوف نہ کیجئے۔ “ وہ جس مقصد کے لئے آئے تھے انہوں نے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو اس سے آگاہ کیا (وبشروہ بغلم علیھم) ” اور انہیں ایک دانش مند لڑکے کی خوش خبری دی۔ “ اس سے مراد اسحاق ( علیہ السلام) ہیں۔ پس حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی بیوی (حضرت سارہ) نے یہ خوشخبری سنی (فاقبلت) تو وہ فرحان و شاداں (ان کی طرف) متوجہ ہوئیں (فی صرۃ) چیخ مار کر (فصکت وجھھا) ” اور انہوں نے (تعجب سے) اپنے چہرے پر ہاتھ مارا۔ “ یہ اس نوع کی کیفیت ہے جو خوشی اور مسرت کے ایسے اقوال و افعال کے وقت طاری ہوجایا کرتی ہے جو طبعیت اور عادت کے خلاف ہوا کرتے ہیں (وقالت عجوز عقیم) اور کہا مجھے بیٹا کیوں کر ہوسکتا ہے، میں تو ایک بڑھیا ہوں اور ایسی عمر کو پہنچ گئی ہوں جس عمر میں عورتیں بچوں کو جنم نہیں دیتیں، مزید برآں میں تو بانجھ بھی ہوں اور میرا رحم بچوں کو جنم دینے کے قابل نہیں۔ پس یہاں دو اسباب ہیں، دونوں ہی بچے کی ولادت دے مانع ہیں۔ سورة ہود میں حضرت سارہ نے ایک تیسرے مانع کا بھی ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (وھذا بعلی شیخا ان ھذا لشئی عجیب) (ھود : 11/82) ” میرا یہ شوہر بھی بہت بوڑھا ہے، یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ “ (قالو اکذلک قال ربک ( ” فرشتوں نے کہا : (ہاں) تیرے پروردگار نے اسی طرح کہا ہے۔ “ یعنی یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے اس کو مقدر کرکے اس کا فیصلہ فرمایا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بارے میں کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ (انہ ھو الحکیم العلیم) ” بیشک وہ حکمت والا اور جاننے والا ہے “ یعنی وہ ہستی جو تمام اشیاء کو ان کے محل و مقام پر رکھتی ہے، وہ اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس لئے اس کی حکمت کے سامنے سر تسلیم خم کرو اور اس کی نعمت کا شکرا دا کرو۔
Top