Tafseer-e-Saadi - Al-Qalam : 32
عَسٰى رَبُّنَاۤ اَنْ یُّبْدِلَنَا خَیْرًا مِّنْهَاۤ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا رٰغِبُوْنَ
عَسٰى : امید ہے کہ رَبُّنَآ : ہمارا رب اَنْ يُّبْدِلَنَا : کہ بدل کردے ہم کو خَيْرًا مِّنْهَآ : بہتر اس سے اِنَّآ : بیشک ہم اِلٰى رَبِّنَا : اپنے رب کی طرف رٰغِبُوْنَ : رغبت کرنے والے ہیں
امید ہے کہ ہمارا پروردگار اس کے بدلے میں ہمیں اس سے بہتر باغ عنایت کرے ہم اپنے پروردگار کی طرف رجوع لاتے ہیں
(عسی ربنا ان یبدلنا خیرا منھا انا الی ربنا راغبون) ۔ پس انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس سے بہتر عطا کرے گا اور انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اللہ کی طرف راغب ہوں گے اور اس دنیا میں اس کے سامنے اصرار کے ساتھ التجائیں کرتے رہیں گے۔ پس اگر وہ ایسے ہی تھے جیسے وہ کہتے تھے تو ظاہر ہے کہ اللہ نے دنیا میں ان کے حال کو بدل دیا ہوگا کیونکہ جو کوئی صدق دل سے اللہ سے دعا کرتا ہے، اس کی طرف راغب ہوتا ہے اور اس کے ساتھ امید وابستہ کرتا ہے تو وہ جو کچھ اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے وہ اسے عطا کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالی نے جو کچھ وقوع پذیر ہوا، اسے بیان کرتے ہوئے فرمایا (کذالک العذاب) یعنی اس شخص کے لیے اسی طرح دنیاوی عذاب ہے جو عذاب کے اسباب کو اختیار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے وہ چیز سلب کرلے جس کی بنیاد پر اس نے سرکشی اور بغاوت کارویہ اپنایا اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی، نیز یہ کہ وہ اس سے وہ چیز زائل کردے جس کا وہ سب سے زیادہ ضرورت مند ہے۔
Top