Tafseer-e-Saadi - Al-Qalam : 47
اَمْ عِنْدَهُمُ الْغَیْبُ فَهُمْ یَكْتُبُوْنَ
اَمْ : یا عِنْدَهُمُ : ان کے پاس الْغَيْبُ : کوئی غیب ہے فَهُمْ يَكْتُبُوْنَ : تو وہ لکھ رہے ہیں
یا ان کے پاس غیب کی خبر ہے کہ (اس سے) لپٹے جاتے ہیں ؟
(ام عندھم الغیب فھم یکتبون) ۔ ان کے پاس غیب کا علم نہیں کہ وہ اس بات کو پاچکے ہوں کہ وہ حق پر ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ثواب سے بہرور ہوں گے یہ معاملہ جیسا بھی ہے ان کا حال تو ایک معاند اور ظالم کا سا ہے پس اس کے سوا کچھ باقی نہیں کہ ان کی ایذا رسانیوں پر صبر کیا جائے اور جو کچھ ان سے صادر ہو رہا ہے اس پر تحمل کا مظاہرہ کیا جائے اور ان کو بار بار دعوت دی جائے۔ اس لیے فرمایا (فاصبر لحکم ربک) یعنی اللہ تعالیٰ نے شرعا اور قدرا جو فیصلہ کیا ہے اس پر صبر کیجئے حکم قدری یہ ہے کہ ایذا پر صبر کیا جائے اور ناراضی اور بےصبری کے ساتھ ان کا سامنا نہ کیا جائے حکم شرعی کو قبول کیا جائے اس کے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے اور اس کے امر کی اطاعت کی جائے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (ولاتکن کصاحب الحوت) اور مچھلی والے کی طرح نہ ہونا، اور وہ ہیں یونس بن متی (علیہ السلام) یعنی اس حال میں حضرت یونس کی مشابہت اختیار نہ کیجئے جو حال مچھلی کے پیٹ میں ان کے محبوس ہونے کا باعث بنا اور وہ ہے اپنی قوم پر ان کا عدم صبر جو آپ سے مطلوب تھا اور اپنے رب سے ناراض ہو کر جانا، حتی کہ آپ کشتی میں سوار ہوئے، جب کشتی بوجھل ہوگئی تو کشتی والوں نے آپس میں قرعہ اندازی کی کہ کشتی کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ان میں سے کسی کو سمندر کے اندر پھینکا جائے۔ پس حضرت یونس کے نام پر قرعہ پڑا (فالتقمہ الحوت وھو ملیم۔ الصافات 142) ۔ پس ان کو مچھلی نے نگل لیا اور وہ قابل ملامت کام کرنے والے تھے۔ (اذ نادی وھو مکظوم) یعنی انہوں نے پکارا جبکہ وہ مچھلی کے پیٹ میں تھے اور ان پر دروازہ بند کردیا گیا تھا یا یہ کہ انہوں نے پکارا اور وہ ہم وغم سے لبریز تھے، چناچہ کہا، (لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین۔ الانبیاء 87) ۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے بیشک میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے یونس کی دعا قبول فرمائی چناچہ مچھلی نے انہیں، جب کہ وہ بیمار تھے چٹیل میدان میں ڈال دیا۔ اللہ نے ان پر کدو کی بیل اگا دی اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا (لولا ان تدار کہ نعمۃ من ربہ لنبذ بالعراء) ۔ اگر اس کے رب کی مہربانی ان کی یاوری نہ کرتی تو وہ چٹیل میدان میں ڈال سیے جاتے۔ یعنی انہیں چٹیل میدان میں ُ پھینک دیا جاتا (العراء) سے مراد (ہر قسم کی نباتات سے) خالی زمین ہے۔ وھو مذموم) ۔ اور وہ برے حال میں ہوتے، مگر اللہ نے ان کو اپنی رحمت سے ڈھانپ دیا، ان کو اس حال میں پھینک دیا کہ وہ ممدوح تھے اور ان کی یہ حالت پہلی حالت سے بہتر ہوگئی۔
Top