Tafseer-e-Saadi - Al-A'raaf : 199
خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ
خُذِ : پکڑیں (کریں) الْعَفْوَ : درگزر وَاْمُرْ : اور حکم دیں بِالْعُرْفِ : بھلائی کا وَاَعْرِضْ : اور منہ پھیر لیں عَنِ : سے الْجٰهِلِيْنَ : جاہل (جمع)
(اے محمد ﷺ عفو اختیار کرو اور نیک کام کرنے کا حکم دو اور جاہلوں سے کنارہ کرلو۔
آیت 199 یہ آیت کریمہ لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق اور ان کے ساتھ رویئے کے بارے میں جامع آیت ہے۔ لوگوں کے ساتھ معاملے میں مناسب رویہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ عفو و درگزر، آسان اعمال و اخلاق اور نرمی سے پیش آیا جائے، ان کو کسی ایسی بات کا مکلف نہ کیا جائے جس کو ان کی طبائع قبول نہ کریں بلکہ ہر شخص کی بات اور اچھے یا برے فعل کو قبول کیا جائے، ان کی کوتاہی سے درگزر کیا جائے اور ان کے نقائص سے چشم پوشی کی جائے۔ کسی چھوٹے کے ساتھ اس کے چھوٹا ہونے، کسی ناقص العقل کے ساتھ اس کے نقص اور کسی محتاج کے ساتھ اس کی محتاجی کی بنا پر تکبر سے پیش نہ آیا جائے، بلکہ تمام لوگوں کے ساتھ لطف و کرم کا اور احوال کے تقاضے کے مطابق معاملہ کیا جائے کہ جس سے ان کے سینے کھل جائیں۔ (وامر بالعرف) ” اور حکم کیجیے نیک کام کرنے کا “ یعنی ہر قریب اور بعید شخص کو اچھی بات، اچھے فعل اور کامل اخلاق کا حکم دیجیے۔ آپ جو کچھ لوگوں کو عطا کریں وہ تعلیم علم ہو یا کسی بھلائی کی ترغیب دینا، جیسے صلہ رحمی، یا والدین کے ساتھ حسن سلوک یا لوگوں کے درمیان صلح کروانا یا نفع بخش خیر خواہی یا صائب رائے یا نیکی اور تقویٰ پر معاونت یا برائی پر زجر و توبیخ یا کسی دینی یا دنیاوی بھلائی کی طرف راہنمائی۔ چونکہ جاہل کی طرف سے تکلیف اور اذیت کا پہنچنا ایک لابدی امر ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جاہل سے اعراض اور درگزر سے کام لیا جائے اور اس کی جہالت کا مقابلہ نہ کیا جائے۔ پس جو کوئی آپ کو اپنے قول و فعل سے اذیت دیتا ہے آپ اس کو اذیت نہ دیں، جو آپ کو محروم کرتا ہے آپ اس کو محروم نہ کریں، جو آپ سے قطع تعلق کرتا ہے آپ اس سے تعلق جوڑے رکھیں اور جو آپ پر ظلم کرتا ہے آپ اس کے ساتھ انصاف کریں۔ رہی یہ بات کہ بندہ مومن کو شیاطین جنوں اور انسانوں کے ساتھ کیسا معاملہ کرنا چاہیے ؟ تو ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
Top