Tafseer-e-Saadi - Al-A'raaf : 59
لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
لَقَدْ اَرْسَلْنَا : البتہ ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖ : اس کی قوم فَقَالَ : پس اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا : نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اِنِّىْٓ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ عَظِيْمٍ : ایک بڑا دن
ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ تو انہوں نے اس کو کہا اے میری برادری کے لوگوں خدا کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ مجھے تمہارے بارے میں بڑے دن کے عذاب کا بہت ہی ڈر ہے۔
آیت 59 جب اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کے دلائل میں سے ایک اچھا حصہ ذکر فرمایا، تو اب اس کی تائید میں انبیائے کرام کا، جو اس کی توحید کے داعی تھے اور اس رویے کا جو ان کی امتوں کے منکرین توحید کی طرف سے پیش آیا، اسے بیان فرما رہا ہے۔ نیز یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کیسے اہل توحید کی تائید فرمائی اور انبیاء ومرسلین سے عناد رکھنے والوں اور ان کی اطاعت نہ کرنے والوں کو ہلاک کردیا۔۔۔ اور کیسے انبیاء ومرسلین کی دعوت ایک ہی دین اور ایک ہی عقیدہ پر متفق تھی۔ چناچہ نوح جو اولین رسول ہیں، کے بارے میں فرمایا : (لقد ارسلنا نوحاً الی قومہ) ” ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ “ حضرت نوح کفار کو اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے جبکہ وہ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ (فقال) نوح نے ان سے فرمایا : (یقوم اعبدواللہ) ” اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو۔ “ یعنی صرف اللہ تعالیٰ کی عابدت کرو۔ (مالکم من الہ غیرہ) ” اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں “ کیونکہ وہی خالق و ررازق اور تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے اور اس کے سوا ہر چیز مخلوق اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر و تصرف کے تحت ہے اور کسی معاملے میں اسے کوئی اختیار نہیں۔ پھر انہیں عدم اطاعت کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے ہوئے فرمایا : (انی اخاف علیکم عذاب یوم عظیم) ” میں ڈرتا ہوں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے “ یہ ان کے لئے نوح کی خیر خواہی اور شفقت ہے کہ وہ ان کے بارے میں ابدی عذاب اور دائمی بدبختی سے خائف ہیں جیسے ان کے بھائی دیگر انبیا ومرسلین مخلوق پر ان کے ماں باپ سے زیادہ شفقت رکھتے تھے۔ جب نوح نے ان سے یہ بات کہی تو انہوں نے حضرت نوح کو بدترین جواب دیا : (قال الملامن قومہ) ” ان کی قوم کے سرداروں نے کہا۔ “ یعنی سرداروں اور دولت مند راہنماؤں نے کہا، حق کے سامنے تکبر کرنا اور انبیاء ومرسلین کی اطاعت نہ کرنا، ہمیشہ سے ان کی عادت رہی ہے۔ (انا لنربک فی ضلل مبین) ” ہم دیکھتے ہیں تجھ کو صریح بہکا ہوا “ انہوں نے اسی پر بس نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے کہ انہوں نے انبیا و رسل کی اطاعت نہیں کی بلکہ وہ جناب نوح سے تکبر کے ساتھ پیش آئے اور ان کی عیب چینی کی اور ان کو گمراہی سے منسوب کیا پھر انہوں نے آں جناب کو مجرد گمراہ کہنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ایسی گمراہی سے منسوب کیا جو ہر ایک پر واضح ہوتی ہے۔ یہ انکار حق اور عناد کی بدترین قسم ہے جو کمزور لوگوں میں عقل و فہم نہیں چھوڑتی یہ وصف تو قوم نوح پر منطبق ہوتا ہے جو بتوں کو خدا مانتے ہیں جن کو انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے پتھروں کو تراش کر بنایا ہے۔ جو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ان کے کسی کام آسکتے ہیں۔ انہوں نے ان خداؤں کو وہی مقام دے دیا جو اس کائنتا کو پیدا کرنے وال کا مقام ہے اور ان کے تقرب کے حصول کی خاطر مختلف عبادات ان کے لئے مقرر کردیں۔ اگر ان کا ذہن نہ ہوتا جس کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوتی ہے تو ان کے بارے میں یہی فیصلہ ہوتا کہ فاتر العقل لوگ ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں بلکہ ان سے زیادہ عقل مند ہیں۔ نوح نے نہایت لطیف پیرائے میں جواب دیا جو ان میں رقت پیدا کرے شاید کہ وہ اطاعت کرنے لگیں۔ (یقوم لیس فی ضللۃ) ” اے میری قوم ! مجھے میں کسی طرح کی گمراہی نہیں ہے۔ “ یعنی میں کسی بھی مسئلہ میں کسی طرح بھی گمراہ نہیں ہوں بلکہ میں تو ہدایت یافتہ اور راہ ہدایت دکھانے والا ہوں، بلکہ آنجناب کی راہنمائی، دیگر اولوالعزم رسولوں کی راہ نمائی کی جنس سے ہے اور راہنمائی کی نہایت اعلیٰ اور کامل ترین نوع ہے اور یہ ہے رسالت کاملہ و تامہ کی راہنمائی۔ بنابریں فرمایا (ولکنی رسول من رب العلمین) ” لیکن میں تو رسول ہوں رب العالمین کی طرف یس “ یعنی جو میرا، تمہارا اور تمام مخلوق کا رب ہے، جو مختلف انواع کی ربوبیت کے ذریعے سے مخلوق کو نوازتا ہے، اس کی سب سے بڑی ربوبیت یہ ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی طرف اپنے رسول بھیجے جو انہیں اعمال صالحہ، اخلاق حسنہ اور عقائد صحیحہ کا حکم دیتے ہیں اور ان کے منافی اور متضاد امور سے روکتے ہیں۔ (ابلغکم رسلت ربی وانصح لکم) ” پہنچاتا ہوں تم کو پیغام اپنے رب کے اور خیر خواہی کرتا ہوں تمہاری “ یعنی میری ذمہ داری نہایت خیر خواہی اور شفقت کے ساتھ تمہیں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے اوامرونواہی وضاحت کے ساتھ پہنچا دینا ہے۔ (واعلم من اللہ مالا تعلمون) ” اور میں جانتا ہوں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جو تم نہیں جانتے “ اس لئے جو چیز متعین ہے وہ یہ ہے کہ تم میری اطاعت کرو اور اگر تم علم رکھتے ہو تو میرے حکم کی تعمیل کرو۔ (اوعجبتم ان جآء کم ذکر من ربکم علی رجل منکم) ” کیا تم کو اس بات سے تعجب ہوا ہے کہ تم میں سے ایک شخص کے ہاتھ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نصیحت آئی۔ “ یعنی تم اس حالت پر کیوں کر تعجب کرتے ہو جس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے وہ یہ کہ تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک شخص کے ذریعے سے، جس کی حقیقت، صداقت اور حال سے تم واقف ہو، اللہ تعالیٰ کی طرف سے یاد دہانی، نصیحت اور خیر خواہی آئی ؟ یہ صورت حال تم پر اللہ تعالیٰ کی عنایت اور اس کا احسان ہے جس کو شکر گزاری کے ساتھ قبول کیا جانا چاہیے۔ (لیندرکم ولتتقوا ولعلکم ترحمون) ” تاکہ وہ تمہیں ڈرائے اور تاکہ تم پرہیز گار بنوا اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ “ یعنی تاکہ وہ تمہیں درد ناک عذاب سے ڈرائے اور تاکہ تم ظاہری اور باطنی طور پر تقویٰ پر عمل کر کے اپنے لئے نجات کے اسباب مہیا کرو اسی طرح اللہ تعالیٰ کی بےپایاں رحمت حاصل ہوتی ہے۔ مگر ان کی بابت نوح کی کوششیں کامیاب نہ ہوئیں (فکذبوہ فانجینہ والذین معہ فی الفلک) ” پس انہوں ن اس کو جھٹلایا، پھر ہم نے بچا لیا اس کو اور ان کو جو اس کے ساتھ تھے کشتی میں “ یعنی اس کشتی میں ان کو نجات دی جس کو بنانے کا اللہ تعالیٰ نے نوح کو حکم دیا تھا اور ان کی طرف وحی فرمائی کہ وہ تمام حیوانات میں سے ایک ایک جوڑا، اپنے گھر والوں اور اپنے ساتھی اہل ایمان کو اس کشتی میں سوار کرلیں۔ انہوں نے ان سب کو سوار کرلیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کشتی کے ذریعے سے ان کو نجات دی۔ (واغرقنا الذین کذبوا با یتنا انھم کانوا قوماً عمین) ” اور غرق کردیا ان کو جو جھٹلاتے تھے ہماری آیتوں کو، بیشک وہ لوگ اندھے تھے “ یعنی وہ ہدایت سے اندھے تھے، انہوں نے حق کو دیکھ لیا تھا، اللہ تعالیٰ نے نوح کے ہاتھ پر ان کو ایسی ایسی کھلی نشانیاں دکھائی تھیں کہ عقلمند لوگ ان پر ایمان لے آتے ہیں مگر انہوں نے حضرت نوح کا تمسخر اڑایا، آنجناب کے ساتھ گستاخی سے پیش آئے اور ان کا انکار کیا۔ (والی عاد اخاھم ھودا) ” اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔ “ یعنی ہم نے عاد اولیٰ کی طرف، جو سر زمین یمن میں آباد تھے ان کے نسبی بھائی ہود کو رسول بنا کر بھیجا جو ان کو توحید کی دعوت تھے اور ان کو شرک اور زمین میں سرکشی سے روکتے تھے (آیت) ” انہوں نے کہا، اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، پس کیا تم ڈرتے نہیں۔ “ اپنے اس رویئے پر قائم رہتے ہوئے تمہیں اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا ؟ مگر انہوں نے حضرت ہود کی بات مانی نہ ان کی اطاعت کی۔ (آیت) ” ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے، کہنے لگے۔ “ یعنی ان کی قوم کے سرداروں نے ان کی دعوت کو ٹھکراتے ہوئے اور ان کی رائے میں عیب چینی کرتے ہوئے کہا : (انا لنرک فی سفاھۃ وانا لنطنک من الکذبین) ” ہم تجھے بیوقوف اور بےراہ رو سمجھتے ہیں اور ہمارا ظن یہ ہے کہ تو جھوٹا ہے۔ “ ان کے سامنے حقیقت بدل گئی اور ان کا اندھا پن مستحکم ہوگیا کیونکہ انہوں نے اپنے نبی ﷺ کی مذمت کی اور ایسے وصف کو ان کی طرف منسوب کیا جس سے خود متصف تھے، حالانکہ ہود لوگوں میں سب سے زیادہ اس وصف سے دور تھے۔ درحقیقت وہ خود بیوقوف اور جھوٹے تھے۔ اس شخص سے بڑھ کر کون بیوقوف ہوسکتا ہے جو سب سے بڑے حق کو ٹھکراتا اور اسکا انکار کرتا ہے۔ جو تکبر سے راہ ہدایت دکھانے والوں اور خیر خواہوں کی اطاعت نہیں کرتا۔ جو اپنے دل و جان سے ہر سرکش شیطان کی اطاعت کرتا ہے اور غیر مستحق ہستیوں کی عبادت کرتا ہے چناچہ وہ پتھروں اور درختوں کی عبادت کرتا ہے جو اس کے کسی کام نہیں آسکتے اور اس شخص سے بڑھ کر کون جھوٹا ہوسکتا ہے جو ان مذکورہ امور کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے ؟ (قال یقوم لیس بی سفاھۃ) ” انہوں نے کہا، اے میری قوم، میں بےعقل نہیں “ یعنی وہ کسی طرح بھی بیوقوف نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول، راہ ہدایت دکھانے والے اور ہدایت یافتہ ہیں (ولکنی رسول من رب العلمین) ” میں جہانوں کے رب کی طرف سے رسول ہوں۔ “ (ابلغکم رسلت ربی وانا لکم ناصح امین) ” میں پہنچاتا ہوں تم کو اپنے رب کے پیغام اور میں تمہارا خیر خواہ ہوں، اعتماد کے لائق “ پس تم پر فرض ہے کہ تم میری رسالت کو مانتے ہوئے اور بندوں کے رب کی اطاعت کرتے ہوئے اسے قبول کرو۔ (او عجبتم ان جآء کم ذکر من ربکم علی رجل منکم لینذرکم) ” کیا تم کو اس بات سے تعجب ہوا ہے کہ تم میں سے ایک شخص کے ہاتھ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں ڈرائے۔ “ یعنی تم ایسے معاملے میں کیوں کر تعجب کرتے ہو جس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے اور وہ معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم ہی میں سے ایک شخص کو جس کو تم خوب جانتے ہو، تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے، وہ تمہیں ان باتوں کی یاد دہانی کراتا ہے جن میں تمہارے مصالح پنہاں ہیں اور تمہیں ان امور کی ترغیب دیتا ہے جن میں تمہارے لئے فائدہ ہے اور تم اس پر اس طرح تعجب کرتے ہو جیسے منکرین تعجب کرتے ہیں۔ (واذکروآ اذجعلکم خلفآء من بعدقوم نوح) ’ اور یاد کرو جب کہ تم کو جانشین بنایا قوم نوح کے بعد “ یعنی تم اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرو اور اس کا شکریہ ادا کرو کیونکہ اس نے تمہیں زمین میں اقتدار عطا کیا اور اس نے تمہیں ہلاک ہونے والی قوموں کا جانشین بنایا جنہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تھا اللہ تعالیٰ نے ان کو اس پاداش میں ہلاک کردیا اور تمہیں باقی رکھا تاکہ وہ دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ تم رسولوں کی تکذیب پر جمے رہنے سے بچو، جیسے وہ جمے رہے ورنہ تمہارے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو ان کے ساتھ ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد رکھو جو اس نے تمہارے لئے مختص کی اور وہ نعمت یہ ہے (وزادکم فی الخلق بصطۃ) ” اس نے زیادہ کردیا تمہارے بدن کا پھیلاو “ یعنی اس نے تمہیں بہت زیادہ قوت، بڑے بڑے مضبوط جسم اور نہایت سخت پکڑ عطا کی۔ (فاذکروا الآء اللہ) ” پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو۔ “ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی بےپایاں نعمتوں اور اس کے مکرر احسانات کو یاد رکھو (لعلکم) ” تاکہ تم “ یعنی اگر تم ان نعمتوں کو شکر گزاری کے ساتھ اور ان کا حق ادا کرتے ہو یاد رکھو گے (تفلحون) ” کامیاب ہوجاؤ “ یعنی اپنے مطلوب و مقصود کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاؤ گے اور اس چیز سے نجات پالو گے جس سے ڈرتے ہو۔ ہود نے ان کو نصیحت کی، ان کو توحید کا حکم دیا اور ان کے سامنے خود اپنے اوصاف بیان کئے اور فرمایا کہ وہ ان کے لئے نہایت امانت دار خیر خواہ ہیں۔ انہیں اس بات سے ڈرایا کہ کہیں اللہ تعالیٰ ان کا اسی طرح مواخذہ نہ کرے جس طرح اس نے ان سے پہلی قوموں کا مواخذہ کیا ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلائیں اللہ تعالیٰ کا احسان یاد دلایا جو وافر رزق کی صورت میں ان پر کیا گیا۔ مگر انہوں نے جناب ہود کی اطاعت کی نہ ان کی دعوت کو قبول کیا۔ (قالوآ) انہوں نے ہود کی دعوت پر تعجب کرتے اور ان کو خبردار کرتے ہوئے کہ یہ بہت محال ہے کہ وہ ان کی اطاعت کریں، کہا (اجئتنا لنعبد اللہ وحدہ ونذرما کان یعبد ابآؤنا) ” کیا تو ہمارے پاس اس و واسطے آیا کہ ہم صرف ایک اللہ کی بندگی کریں اور ان کو چھوڑ دیں جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے رہے “ اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے کہ انہوں نے اس امر کے مقابلے میں، جو سب سے زیادہ واجب اور سب سے زیادہ کامل ہے، اس مذہب کو پیش کیا جس پر انہوں نے اپنے آباء و اجداد کو گامزن پایا۔ اپنے گمراہ آباء و اجداد کے شرک اور عبادت اصنام کو انبیاء ومرسلین کی دعوت یعنی اللہ وحدہ لاشریک کی توحید پر ترجیح دی اور اپنے نبی کو جھٹلایا اور کہنے لگے : (فاتنا بما تعدنا ان کنت من الصدقین) ” پس لے آ تو ہماریپ اس جس چیز سے تو ہم کو ڈراتا ہے، اگر تو سچا ہے “ یہ مطالبہ خود ان کی طرف سے تھا۔ (قال) ہود نے ان سے کہا : (قد وقع علیکم من ربکم رجس و غضبٌ” تم پر واقع ہوچکا ہے تمہارے رب کی طرف سے عذاب اور غصہ “ یعنی اللہ تعالیٰ کے عذاب کا واقع ہونا اٹل ہے کیونکہ اس کے اسباب وجود میں آگئے اور ان کی ہلاکت کا وقت قریب آگیا (اتجاد لوننی فی اسمآء سمیتموھا انتم وآبآؤکم) ” کیا تم مجھ سے ایسے ناموں کے بارے میں جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے خود رکھ لئے ہیں۔ “ یعنی تم ایسے امور میں میرے ساتھ کیوں کر جھگڑتے ہو جن کی کوئی حقیقت نہیں اور ان بتوں کے بارے میں میرے ساتھ کیسے بحث کرتے ہو جن کو تم نے معبودوں کے نام سے موسوم کر رکھا ہے حالانکہان کی اندر الوہیت کی ذرہ بھر بھی صفت نہیں (مانزل اللہ بھا من سلطن) ” اللہ نے ان پر کوئی دلیل نہیں اتاری “ کیونکہ اگر یہ واقعی معبود ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کی تائید میں ضرور کوئی دلیل نازل فرماتا۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے دلیل کا عدم نزول، ان کے باطل ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ کوئی ایسا مطلوب و مقصود نہیں۔۔۔ خاص طور پر بڑے بڑے امور۔۔۔ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے دلائل وبراہین کو بیان نہ فرما دیا ہو اور ایسی حجت نازل نہ فرما دی ہو جس کے ہوتے مطلوب و مقصود نہیں رہ سکتا۔ (فانتظروآ) ” پس تم انتظار کرو۔ “ یعنی پس اس عذاب کا انتظار کرو جو تم پر ٹوٹ پڑنے والا ہے جس کا میں نے تمہارے ساتھ وعدہ کیا ہے (انی معکم من المنتظرین) ” میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں “ اور انتظار کی دونوں اقسام میں فرق ہے ایک انتظار اس شخص کا انتظار ہے جو عذاب کے واقع ہونے سے ڈرتا ہے دوسرا انتظار اس شخص کا اتنظار ہے جو اللہ تعالیٰ کی مدد اور ثواب کا امیدوار ہے۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے دونوں فریقوں کے درمیان فیصلہ فرما دیا۔ (فاتجینہ) پس ہم نے ہود کو نجات دے دی (والذین) ” اور ان کو جو ایمان لائے تھے “ (معہ برحمۃ منا) ” اس کے ساتھ، اپنی رحمت سے “ کیونکہ وہی ہے جس نے ان کی ایمان یک طرف راہنمائی کی اور ان کے ایمان کو ایسا سبب بنایا جس کے ذریعے سے وہ اس کی رحمت حاصل کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان کو نجات عطا کردی۔ (وقطعنا دابر الذین کذبوا بایتنا) ” اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ان کی جڑ کاٹ دی۔ “ (وقطعنا دبرالذین کذبو بایتنا) ” اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ان کی جڑ کاٹ دی۔ “ یعنی ہم نے سخت عذاب کے ذریعے سے ان کی جڑ کاٹ دی اور اس عذاب نے ان میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑا اور اللہ تعالیٰ نے ان پر نامبارک سخت ہوا مسلط کردی۔ وہ جس چیز پر بھی چلتی اسے ریزہ ریزہ کرتی چلی جاتی۔ پس وہ ہلاک کردیئے گئے اور وہ ایسے ہوگئے کہ ان کے گھروں کے سوا کہیں کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ پس ان لوگوں کا انجام دیکھو جن کو اس انجام سے ڈرایا گیا تھا، ان پر حجت قائم کی گئی تھی مگر انہوں نے تسلیم نہ کیا، ان کو ایمان لانے کا حکم دیا گیا تھا مگر وہ ایمان نہ لائے۔ تب ان کا انجام ہلاکت، رسوائی اور فضیحت کی صورت میں ظاہر ہوا۔ (آیت) اور اس دنیا میں بھی لعنت ان کا پیچھا کرتی رہی اور قیامت کے روز بھی یہ لعنت ان کے پیچھے لگی رہے گی۔ دیکھو عاد نے اپنے رب کا انکار کیا اور دیکھو ہود کی قوم عاد پر پھٹکار ہے۔ “ یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” اور جڑ کاٹ دی ہم نے ان کی جو جھٹلاتے تھے ہماری آیتوں کو اور نہیں مانتے تھے “ یعنی وہ کسی طرح بھی ایمان نہ لائے تھے، بلکہ تکذیب اور عنادان کا وصف، تکبر اور فسادان کی پہچان تھی۔
Top