Tafseer-e-Saadi - Al-Anfaal : 22
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ
اِنَّ : بیشک شَرَّ : بدترین الدَّوَآبِّ : جانور (جمع) عِنْدَ : نزدیک اللّٰهِ : اللہ الصُّمُّ : بہرے الْبُكْمُ : گونگے الَّذِيْنَ : جو کہ لَا يَعْقِلُوْنَ : سمجھتے نہیں
کچھ شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتر بہرے گونگے ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے۔
آیت 22 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (ان شر الداوآب عند اللہ) ” سب جان داروں سے بدتر اللہ کے ہاں “ جن کو معجزات اور ڈرانے والے کوئی فائدہ نہیں دیتے، وہ ہیں جو (الصم) حق سننے سے بہرے ہیں۔ (البکم) حق بولنے سے گونگے ہیں (الذین لایعقولن) وہ کسی ایسی چیز کو سمجھ نہیں سکتے جو ان کو فائدہ دیتی ہے اور نہ اسے اس چیز پر ترجیح دے سکتے ہیں جو انہیں نقصان دیتی ہے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں بدترین چوپاؤں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کان، آنکھ اور عقل سے نوازا تاکہ وہ انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے راستے میں استعمال کریں، مگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ان نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی راہ میں استعملا کیا اور اس وجہ سے وہ خیر کثیر سے محروم ہوگئے۔ ان کو چاہیے تھا کہ وہ بہترین مخلوق بننے کی کوشش کرتے مگر انہوں نے اس راستے پر چلنے سے انکار کردیا اور انہوں نے بدترین مخلوق بننا پسند کیا۔ وہ سماعت، جس کی اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں نفی کی ہے، وہ ہے دل میں اثر کرنے والے معافی کی سماعت۔۔۔ رہی سماعت حجت تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی جو آیات سنی ہیں اس کی وجہ سے ان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو سماع نافع سے محروم کردیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ان کے اندر کوئی بھلائین ہیں جس کی وجہ سے ان میں اللہ تعالیٰ کی آیات کو سننے کی صلاحیت ہوتی۔ (ولو اسمعھم) ” اور اگر اب وہ انا کو سنا دے “ یعنی اگر یہ فرض کرلیا جائے (لتولوا) ” تو وہ ضرور پھرجائیں “ یعنی اللہ کی اطاعت سے (وھم معرضون) ” اور وہ اعراض کرنے والے ہیں۔ “ یعنی وہ کسی طور بھی حق کی طرف التفات نہیں کریں گے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ صرف اس شخص کو ایمان اور بھلائی سے محروم کرتا ہے جس میں کوئی صلاحیت نہیں ہوتی اور نہ بھلائی اس کے پاس پھلتی پھولتی ہے۔ اس بارے میں وہ نہایت قابل تعریف اور دانائی کا مالک ہے۔
Top