Tafseer-e-Saadi - Al-Anfaal : 61
وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَاِنْ : اور اگر جَنَحُوْا : وہ جھکیں لِلسَّلْمِ : صلح کی طرف فَاجْنَحْ : تو صلح کرلو لَهَا : اس کی طرف وَتَوَكَّلْ : اور بھروسہ رکھو عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ اِنَّهٗ : بیشک هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہوجاؤ اور خدا پر بھروسہ رکھو۔ کچھ شک نہیں کہ وہ سب کچھ سنتا (اور) جانتا ہے۔
آیت 61 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : (و ان جنحوا) ” اگر وہ مائل ہوں “ یعنی جنگ کرنے والے کفار (للسلم) ” صلح کی طرف “ یعنی صلح اور ترک قتال کی طرف (فاجنح لھا و توکل علی اللہ) ” تو آپ بھی اس (صلح) کی طرف مائل ہوجائیں اور اللہ پر بھروسہ کریں “ یعنی جو چیز وہ طلب کرتے ہیں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے ان کو دے دو ، کیونکہ اس میں بہت سے فوائد ہیں، مثلا : 1 ۔ ہر وقت طلب عافیت مطلوب ہے اور اگر وہ طلب عافیت میں ابتداء کرتے ہیں تو اس کا مثبت جواب دینا اولیٰ ہے۔ 2 ۔ اس سے تمہاری قوتیں جمع ہوں گی اور کسی دوسرے وقت اگر ان کے خلاف جنگ ناگزیر ہوجائے تو تمہاری یہ جنگی استعداد تمہارے کام آئے گی۔ 3 ۔ اگر تم نے صلح کرلی اور ایک دوسرے سے مامون ہوگئے اور ایک دوسرے کے اطوار کی معرفت حاصل کرلی تو اسلام کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ غالب آتا ہے کبھی مغلوب نہیں ہوتا۔ پس ہر وہ شخص جو عقل و بصیرت سے بہرہ ور ہے اگر وہ انصاف سے کام لیتا ہے تو وہ اسلام کو، اس کے اوامرو نواہی کی خوبی، مخلوق کے ساتھ اس کے حسن معاملہ اور ان کے ساتھ عدل و انصاف کی بناء پر دوسرے ادیان پر ترجیح دے گا۔ وہ یہ بھی دیکھے گا کہ کسی بھی پہلو سے اس میں کوئی ظلم و جور نہیں اور کثرت سے لوگ اس یک طرف راغب ہوتے ہیں۔ تب یہ صلح کفار کے خلاف مسلمانوں کے لئے مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اس صلح میں صرف ایک بات کا خوف ہوتا ہے کہ کہیں کفار کا مقصد مسلمانوں کو دھوکہ دنیا اور اس کے ذریعے سے صرف وقت اور مہلت حاصل کرنا نہ ہو۔۔۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو آگاہ فرمایا ہے کہ وہ کفار کے مکروفریب کے مقابلے میں ان کے لئے کافی ہے اور اس مکروفریب کا ضرر انہی کی طرف لوٹے گا۔ چناچہ فرمایا : (وان یریدوا ان یخدعوک فان حسک اللہ) ” اور اگر وہ آپ کو دھوکہ دینا چاہیں، تو آپ کو اللہ کافی ہے “۔ یعنی آپ کو جو ایذا پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہے۔ وہی ہے جو آپ کے مصالح اور امور ضروریہ کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ آپ کے لئے اللہ تعالیٰ کی نصرت اور کفایت اس سے پہلے بھی تھی جس پر آپ کا قلب مطمئن تھا۔ (ہوالذی ایدک بنصرہ و بالمومنین) ” وہی ہے جس نے آپ کو اپنی مدد سے اور مومنوں ( کی جمعیت) سے تقویت بخشی “۔ یعنی وہی ہے جس نے آسمانی مدد کے ذریعے سے آپ کی اعانت فرمائی اور یہ اس کی طرف سے ایسی مدد ہے جس کا کوئی چیز مقابلہ نہیں کرسکتی، نیز اللہ تعالیٰ کا اہل ایمان کے ذریعے سے آپ کی مدد فرمانا یہ ہے کہ ان کو آپ کی مدد پر مقرر فرما دیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (والف بین قلوبھم) ” اللہ نے ان کے دلوں کو جوڑ دیا “ پس وہ اکٹھے ہوگئے اور اس سبب سے ان کی قوت میں اضافہ ہوگیا۔ یہ سب کچھ اللہ کی طاقت کے سوا کسی اور کی کوشش اور طاقت کے سبب سے نہ تھا۔ ( لوانفقت ما فی الارض جمیعا) ” اگر آپ خرچ کردیتے جو کچھ زمین میں ہے سارا “ اس شدید نفرت اور افتراق کے ہوتے ہوئے جو ان میں پایا جاتا تھا اگر آپ زمین کا تمام سونا، چاندی وغیرہ ان کے دلوں کو جوڑنے کے لئے خرچ کردیتے (ما الفت بین قلوبھم) ” پھر بھی آپ ان کے دلوں کو کبھی جوڑ نہ سکتے “ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ہستی دلوں کو بدلنے پر قادر نہیں۔ (ولکن اللہ الف بینھم انہ عزیز حکیم) ” لیکن اللہ نے الفت ڈال دی ان میں، بیشک وہ غالب ہے حکمت والا “۔ یہ اس کا غلبہ ہی ہے کہ اس نے ان کے دلوں میں الفت ڈال دی اور ان کے افتراق اور تفرقہ کے بعد ان کو اکٹھا اور متحد کردیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (واذکروا نعمت اللہ علیکم از کنتھم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا و کنتھ علی شفاء حفرۃ من النار فائقد کم منھا) (آل عمران) ” اور اللہ کی نعمت کو جو تم پر ہوئی، یاد کرو، جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، پس اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا “۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (یایھا النبی حسبک اللہ) ” اے نبی اللہ آپ کو کافی ہے “۔ یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو کافی ہے (ومن اتبعک من المومنین) ” اور آپ کے متبعین اہل ایمان کے لئے (بھی) کافی ہے “۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کے لئے، جو اس کے رسول کے اطاعت گزار ہیں، کافی ہونے کا اور ان کے دشمنوں کے خلاف فتح و نصرت کا وعدہ ہے۔ جب انہوں نے ایمان اور اتباع رسول کے سبب کو اختیار کیا تو ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی دین و دنیا کی پریشانیوں سے ان کے لئے کافی ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ کی کفایت تو صرف اپنی شرط کے معدوم ہونے پر معدوم ہوتی ہے۔
Top