Tafseer-e-Saadi - Al-Anfaal : 64
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّبِيُّ : نبی حَسْبُكَ : کافی ہے تمہیں اللّٰهُ : اللہ وَمَنِ : اور جو اتَّبَعَكَ : تمہارے پیرو ہیں مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اے نبی ﷺ ! خدا تم کو اور مومنوں کو جو تمہارے پیرو ہیں کافی ہے۔
آیت 64 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی ﷺ سے فرماتا ہے : (یایھا النبی حرص المومنین علی القتال) ” اے نبی ! مومنوں کو جہاد کی ترغیب دو “۔ یعنی آپ انہیں ہر اس طریقے کے ذریعے سے قتال پر آمادہ کریں جس سے ان کے عزائم مضبوط ہوں اور ان کے ارادوں میں نشاط پیدا ہو۔ یعنی جہاد اور دشمن سے مقابلے کی ترغیب دی جائے اور جہاد سے باز رہنے کے انجام سے ڈرایا جائے۔ شجاعت اور صبر کے فضائل اور ان پر مرتب ہونے والی دین و دنیا کی بھلائی کا ذکر کیا جائے۔ بزدلی کے نقصانات بیان کئے جائیں اور یہ واضح کیا جائے کہ بزدلی ایک انتہائی رذیل اور ناقص خصلت ہے اور شجاعت کا اہل ایمان کی صفت ہونا دوسروں کی نسبت زیادہ اولیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (ان تکونوا تالمون فانھم یالمون کما تالمون و ترجون من اللہ مالا یرجون) (النساء) ” اگر تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو انہیں بھی تکلیف پہنچتی ہے جیسے تمہیں پہنچتی ہے جبکہ تم اللہ سے ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے “۔ (ان یکن منکم) ” اے مومنو ! اگر ہوں تم میں سے “ (عشرون صبرون یغلبو مائتین و ان یکن منکم مائتہ یغلبو الفا امن الذین کفروا) ” بیس شخص ثابت قدم رہنے والے تو غالب ہوں گے وہ دو سو پر اور اگر ہوں تم میں سے سو شخص، غالب ہوں گے ہزار کافروں پر “۔ یعنی ایک مومن دس کافروں کا مقابلہ کرے گا اور اس کا سبب یہ ہے (بانھم) ” کہ وہ “ یعنی کفار (قوم لایفقھون) ” ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے “۔ یعنی انہیں کوئی علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے میں جہاد کرنے والے مجاہدین کے لئے کیا ثواب تیار کر رکھا ہے۔ پس یہ کفار زمین میں اقتدار، تغلب اور اس میں فساد پھیلانے کے لئے لڑتے ہیں اور تم (اے مسلمانو ! ) اس جنگ کا مقصد سمجھتے ہو کہ یہ جنگ اعلائے کلمتہ اللہ، دین کے غلبہ، کتاب اللہ کی حفاظت اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بڑی کامیابی کے حصول کے لئے ہے اور یہ تمام امور شجاعت، صبر و ثبات اور اقدام علی القتال کے اسباب ہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے اس حکم میں تخفیف کردی۔ چناچہ فرمایا : (ائن خفف اللہ عنکم و علم ان فیکم ضعفا) ” اب بوجھ ہلکا کردیا اللہ نے تم پر سے اور جان لیا کہ تم میں کمزوری ہے “۔ اسی لئے اللہ کی رحا 8 ت اور اس کی حکمت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ اس حکم میں تخفیف کردی جائے، چناچہ اب اگر تم میں سے سو آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں، تو وہ دو سو پر اور اگر ہزار ہوں تو وہ دو ہزار پر غالب ہوں گے۔ (واللہ مع الصبرین) ” اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے “۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مدد اور تائید کے ذریعے سے صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان آیات کریمہ کا اسلوب اگرچہ اہل ایمان کے بارے میں خبر کا ہے کہ جب وہ اس معینہ تعداد تک پہنچتے ہیں تو وہ مقابلے میں کفار کی مذکورہ تعداد پر غالب آجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر اپنے اس احسان کا ذکر فرمایا کہ اس نے ان کو شجاعت ایمانی سے نوازا ہے، مگر اسکا معنی اور حقیقی منشا امر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو پہلے حکم دیا کہ ایک مومن کو (میدان جنگ میں) دس کافروں کے مقابلے سے فرار نہیں ہونا چاہیے، اسی طرح دس مومنوں کو سو کافرون اور سومومنوں کو ہزار کافروں کے مقابلے سے منہ نہیں موڑنا چاہیے۔ پھر اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے تخفیف فرما دی اور حکم دیا کہ وہ اپنے سے دوگنا کفار کے مقابلے سے فرار نہ ہوں۔ اگر کفار کی تعداد دوگنا سے زیادہ ہو تو اس صورت میں کفار کے مقابلے سے بھاگنا جائز ہے، مگر دو امور اس کی تردید کرتے ہیں۔ 1 ۔ یہ حکم خبر کے اسلوب میں ہے اور خبر کا اصول یہ ہے کہ یہ اپنے باب کے مطابق استعمال ہوتی ہے اور اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کے احسان کا ذکر اور امر واقع کی خبر دینا ہے۔ 2 ۔ اس عدد مذکور کو صبر کی قید کے ساتھ مقید کیا گیا ہے۔ یعنی انہوں نے صبر کو مشق کے ذریعے سے اپنی عادت بنا لیا ہو۔ اس کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر وہ صابر نہ ہوں تو ان کے لئے فرار جائز ہے خواہ کافران سے کم ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ اس صورت میں ہے جب نقصان پہنچنے کا اندیشہ غالب ہو، جیسا کہ حکمت الہیہ کا تقاضا ہے۔ پہلے نکتے کا جواب یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد (الئن خفف اللہ عنکم) ۔۔۔ سے لے کر (مع الصبرین) تک۔۔۔ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ امر لازم اور حتمی ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس تعداد میں تخفیف فرما دی۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت کریمہ کا پیرا یہ اگرچہ خبر کا ہے، مگر اس سے مراد امر ہیّ اس بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حکم کو خبر کے پیرائے میں بیان کرنے میں ایک انوکھا نکتہ پنہاں ہے، جو امر کے اسلوب میں ہرگز نہ پایا جاتا۔۔۔ اور وہ یہ کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کے دلوں کے لئے تقویت اور بشارت ہے کہ وہ عنقریب کافروں پر غالب آئیں گے۔ دوسرے نکتے کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اہل ایمان کو صبر کی صفت سے مقید کرنا درحقیقت ان کو صبر کی ترغیب دینا ہے۔ یعنی تمہارے لئے مناسب یہ ہے کہ تم وہ تمام اسباب اختیار کرو جو صبر کے موجب ہیں۔ جب وہ صبر کا التزام کرتے ہیں تو تمام اسباب ایمانی اور اسباب مادی اس امر کے حصول کی خوشخبری دیتے ہیں، جس کی اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے۔۔۔ یعنی ال ایمان کی قلیل تعداد کو فتح و نصرت سے نوازنا۔
Top