Tafseer-e-Saadi - At-Tawba : 22
خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ
خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَآ : اس میں اَبَدًا : ہمیشہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عِنْدَهٗٓ : اس کے ہاں اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : عظیم
(اور وہ) ان میں ابدا لآباد رہیں گے۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کے ہاں بڑا صلہ (تیار) ہے۔
آیت نمبر (22) جب بعض مسلمانوں کے درمیان یا بعض مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان اس امر میں اختلاف واقع ہوگیا کہ مسجد حرام کی تعمیر ‘ اس کے اند نماز پڑھنا ‘ اس میں عبادت کرنا اور حاجیوں کو پانی پلانا افضل ہے یا اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لنا اور اس کے راستے میں جہاد کرنا ؟ تو اللّٰہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ان دونوں کے درمیان بہت تفاوت ہے۔ چناچہ فرمایا ” کیا کردیا تم نے حاجیوں کے پانی پلانے کو “ یعنی ان کو آپ زم زم پلانا ‘ جیسا کہ معروف جب پلانے کا ذکر مطلق کیا جائے تو اس سے مراد آپ زم زم پلانا ہی ہوتا ہے ” اور مسجد حرام کے بسانے کو ] اس شخص کے برابر جو ایمان لایا اللّٰہ اور یوم آخرت پر اور لڑا اللہ کی راہ میں یہ برابر نہیں ہیں اللہ کے نزدیک “۔ پس جہاد اور ایمان باللّٰہ حاجیوں کو آب زم زم پلانے اور مسجد حرام کی تعمیر سے کئی درجے افضل ہیں کیونکہ ایمان دین کی اساس ہے اور اسی کے ساتھ اعمال قابل قبول ہوتے ہیں اور خصائل کا تزکیہ ہوتا ہے۔ رہا جہاد فی سبیل اللہ تو وہ دین کو کوہان ہے جہاد ہی کے ذریعے سے دین اسلام کی حفاظت ہوتی ہے اور اس میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ جہاد ہی کے ذریعے سے حق کی مدد کی جاتی ہے اور باطل بےیارو مددگار ہوتا ہے۔ رہا مسجد کو آباد کرنا اور حاجیوں کیو آپ زم زم پلانا ‘ یہ اگرچہ نیک اعمال ہیں مگر ان کی قبولیت ایمان باللہ پر موقوف ہے اور ان اعمال میں وہ مصالح نہیں ہیں جو ایمان باللہ اور جہاد میں ہیں۔ اسی لئے فرمایا : یہ اللہ کے ہاں برابر نہیں۔” اور اللہ ظالموں کی ہدایت نہیں دیتا “ یعنی وہ لوگ جن کا وصف ہی ظلم ہے جو بھلائی کی کسی چیز کو بھی قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ برائی کے سوا کوئی چیز ان کے لائق نہیں۔ پھر نہایت صراحت کے ساتھ اہل ایمان کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ” وہ لوگ جو اینا لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا اپنے مالوں کے ساتھ “ یعنی اپنا مال جہاد میں اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کو جہاد کا سامان مہیا کرنے میں خرچ کرتے ہیں۔ ” اور اپنی جانوں کے ساتھ “ اور خود جہاد کے لیے نکلتے ہیں ” ان کے لئے بڑا درجہ ہے اللہ کے ہاں اور یہی لوگ ہیں مراد کو پہنچنے والے “ یعنی کوئی شخص اپنا مطلوب حاصل کرسکتا ہے نہ کسی ڈر سے نجات پاسکتا ہے سوائے اس کے جو ان کی صفات سے متصف ہوتا ہے اور ان کے اخلاق کو اپناتا ہے۔ ” ان کو ان کا رب بشارت دیتا ہے “ اپنی طرف سے رحم و کرم ‘ ان پر لطف و احسان اور ان سے اعتناء اور محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ” اپنی طرف سے رحمت کی “ جس کے ذریعی سے وہ ان سے برائیوں کو دور کرتا اور ہر طرح کی بھلائی ان تک پہنچاتا ہے۔ ” اور اپنی رضا مندی کی “ جو جنت میں سب سے بڑی اور نہایت جلیل القدر نعمت ہوگی۔ پس وہاں اللہ تعالیٰ اہل جنت کے سامنے اپنی رضا مندی کا اعلان فرمائے گا اور پھر کبھی ان پر ناراض نہیں ہوگا۔” اور باغوں کی جن میں ان کو آرام ہے ہمیشہ کا “ ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والی ہر قسم کی نعمتیں موجود ہوں گی جن کی دل خواہش کریں گے اور جن سے آنکھیں لذت حاصل کریں گی جن کے اوصاف اور مقدار کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا جو یہ نعمتیں عطا کرے گا۔ ان میں سے ایک نعمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والے مجاہدین کے لیے جنت میں سو درجے تیار رکھے ہیں ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان۔ اگر تمام مخلوق ایک درجہ میں جمع ہوجائے تو اس ایک درجہ میں سما جائے۔ ” اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے “ وہ وہاں سے منتقل ہوں گے نہ وہاں سے نکلنا چاہیں گے۔” بیشک اللہ کے پاس ہے بڑا اجر “ اجر کی کثرت اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی بعید نہیں اور نہ اس اجر کا بڑا اور اچھا ہونا اس ہستی کے بارے میں کوئی تعجب خیز ہے جو کسی چیز سے جب کہتی ہے ” ہوجا “ تو وہ ہوجاتی ہے۔
Top