Tafseer-e-Saadi - At-Tawba : 43
عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ١ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْكٰذِبِیْنَ
عَفَا : معاف کرے اللّٰهُ : اللہ عَنْكَ : تمہیں لِمَ : کیوں اَذِنْتَ : تم نے اجازت دی لَهُمْ : انہیں حَتّٰي : یہاں تک کہ يَتَبَيَّنَ : ظاہر ہوجائے لَكَ : آپ پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَدَقُوْا : سچے وَتَعْلَمَ : اور آپ جان لیتے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
خدا تمہیں معاف کرے۔ تم نے پیشتر اس کے کہ تم پر وہ لوگ بھی ظاہر ہوجاتے جو سچے ہیں اور وہ بھی تمہیں معلوم ہوجاتے جو جھوٹے ہیں انکو اجازت کیوں دی ؟
آیت 43 (عفا اللہ عنک) ” اللہ نے آپ سے درگزر فرمایا “ اور آپ سے جو کچھ صادر ہوا اسے بخش دیا۔ (لم اذنت لھم) ” آپ نے (انہیں پیچھے رہ جانے کی) اجازت کیوں دی۔ “ (حتی یتبین لک الذین صدقوا و تعلم الکذبین) ” حتی کہ آپ پر وہ لوگ ظاہر ہوجاتے جو سچے ہیں اور وہ بھی آپ کو معلوم ہوجاتے جو جھوٹے ہیں۔ “ یعنی ان کو آزمانے کے بعد معلوم ہوتا کہ سچا کون اور جھوٹن کون ہے، تب آپ اس شخص کا عذر قبول فرماتے جو اس کا مستحق ہے اور اس شخص کا عذر قبول نہ فرماتے جو اس کا مستق نہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے اپنے جان و مال کے ذریعے سے جہاد ترک کرنے کی اجازت طلب نہیں کرتے، بلکہ بغیر کسی عذر کے جہاد ترک کرنے کی اجازت مانگنا تو کجا، بغیر کسی ترغیب کے، ایمان اور بھلائی میں ان کی رغبت انہیں جہاد پر آمادہ رکھتی ہے۔ (واللہ علیکم بالمتقین) ” اور اللہ متقین کو خوب جانتا ہے “ پس وہ انہیں اسبات کی جزا دے گا کہ انہوں نے تقویٰ کو قائم رکھا۔ متقین کے بارے میں یہ اللہ تعالیٰ کا علم ہی ہے کہ اس نے آگاہ فرمایا کہ ان کی علاتم یہ ہے کہ وہ جہاد چھوڑنے کی اجازت نہیں ماگنتے۔ (انما یستاذنک الذین لایومنون باللہ والیوم الاخر وارتابت قلوبھم) ” آپ سے رخصت تو صرف وہی مانگتے ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر یقین نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں “ یعنی ان کے اندر ایمان کامل اور یقین صادق نہیں ہے اسی لئے بھلائی میں ان کی رغبت بہت کم ہے۔ قتال کے بارے میں وہ بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور حاجت محسوس کرتے ہیں کہ وہ قتال ترک کرنے کی اجازت طلب کریں۔ (فھم فی ریبھم یترددون) ” اور وہ اپنے شک میں متردد رہتے ہیں۔ “
Top