Tafseer-e-Saadi - At-Tawba : 61
وَ مِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُنٌ١ؕ قُلْ اُذُنُ خَیْرٍ لَّكُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ یُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ رَحْمَةٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَمِنْهُمُ : اور ان میں سے الَّذِيْنَ : جو لوگ يُؤْذُوْنَ : ایذا دیتے (ستاتے) ہیں النَّبِيَّ : نبی وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں هُوَ : وہ (یہ) اُذُنٌ : کان قُلْ : آپ کہ دیں اُذُنُ : کان خَيْرٍ : بھلائی لَّكُمْ : تمہارے لیے يُؤْمِنُ : وہ ایمان لاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَيُؤْمِنُ : اور یقین رکھتے ہیں لِلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں پر وَرَحْمَةٌ : اور رحمت لِّلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے مِنْكُمْ : تم میں وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُؤْذُوْنَ : ستاتے ہیں رَسُوْلَ اللّٰهِ : اللہ کا رسول لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اور ان میں بعض ایسے ہیں جو پیغمبر ﷺ کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے (ان سے) کہہ دو کہ (وہ) کان (ہے تو) تمہاری بھلائی کے لئے۔ اور خدا کا اور مومنوں (کی بات) کا یقین رکھتا ہے۔ اور جو لوگ تم میں ایمان لائے ہیں انکے لئے رحمت ہے۔ اور جو لوگ رسول خدا ﷺ کو رنج پہنچاتے ہیں ان کے لئے عذاب الیم (تیار) ہے۔
آیت 61 (1) لیکن ان کی بنیاد سنن ابی داؤد وغیرہ کی ایک روایت ہے جس کی رو سے حج وعمرہ پر زکوۃ کی رقم صرف کرنے کا جواز معلوم ہوتا ہے۔ شیخ البانی (رح) نے اسے صحیح کہا ہے لیکن اس میں عمرہ کے ذکر کو شاذ قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو، اور اء الغلیل 382/3) علاوہ ازیں صحابہ میں سے حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر اور ائمہ میں سے امام احمد و امام اسحاق رحمتہ اللہ علیہم وغیرہ بھی اس کے قائل ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیے، راقم کی کتاب ” زکوۃ، عشر اور صدقتہ الفطر “ ص 301، 401 مطبوعہ دار السلام (ص۔ ی) یعنی یہ منافقین (الذین یوذون النبی) ” جو نبی کو ایذا دیتے ہیں۔ “ یعنی جو روی اقوال اور عیب جوئی کے ذریعے سے نبی اکرم ﷺ کو ایذا پہنچاتے ہیں۔ (ویقولون ھو اذن) ” اور کہتے ہیں کہ وہ کان (کا کچا) ہے۔ “ اور انہیں اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ ان کی بدگوئی کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ کو دکھ پہنچتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ان میں سے کچھ باتیں آپ تک پہنچتی ہیں تو ہم آپ کے پاس معذرت پیش کرنے کے لئے آجاتے ہیں اور آپ ہماری معذرت قبول کرلیتے ہیں، کیونکہ آپ کان کے کچے ہیں۔ یعنی آپ سے جو کچھ کہا جاتا ہے آپ اسے تسلیم کرلیتے ہیں سچے اور جھوٹے میں تمیز نہیں کرتے۔ ان کا مقصد تو محض یہ تھا۔۔۔۔۔۔ اللہ ان کا برا کرے۔۔۔۔۔۔ کہ وہ اس بات کی کوئی پروا کریں نہ اس کو اہمیت دیں، کیونکہ ان کی کوئی بات آپ تک نہ پہنچے تو یہی ان کا مطلوب ہے اور اگر آپ تک وہ بات پہنچ جائے تو صرف باطل معذورتوں پر اکتفا کریں۔ پس انہوں نے بہت سے پہلوؤں سے برائی کا رویہ اختیار کیا : (1) ان میں سب سے بری بات یہ ہے کہ وہ اپنے نبی ﷺ کو ایذا پہنچاتے ہیں جو ان کی رہنمائی اور ان کو ہلاکت اور شقاوت کے گڑھے سے نکال کر ہدایت اور سعادت کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے تشریف لائے۔ (2) وہ اس ایذا رسانی کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے، یہ مجرد ایذا رسانی پر ایک قدر زائد ہے۔ (3) وہ نبی کریم ﷺ کی عقل و دانش میں عیب نکالتے تھے، آپ کو عدم ادراک اور سچے اور جھوٹے کے درمیان امتیاز نہ کرسکنے کی صفات سے متصف کرتے تھے۔ حالانکہ آپ مخلوق میں سب سے زیادہ عقل کامل سے بہرہ مند بدرجہ اتم ادراک کے حامل، عمدہ رائے اور روشن بصیرت رکھنے والے تھے۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (قل اذن خیرلکم) ” آپ کہہ دیجیے، کان ہیں تمہاری بہتری کے لئے “ یعنی جو کوئی بھلی اور سچی بات کہتا ہے آپ ﷺ اسے قبول فرما لیتے ہیں۔ رہا آپ کا صرف نظر کرنا اور جھوٹے عذرات پیش کرنے والے منافقین کے ساتھ سختی سے پیش نہ آنا، تو یہ آپ کی کشادہ ظرفی، ان کے معاملے میں عدم اہتمام اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی اطاعت کی بنا پر تھا۔ (آیت) ” جب تم واپس جب تم واپس لوٹو گے تو یہ منافقین قسمیں کھائیں گے، تاکہ تم ان سے صرف نظر کرو، پس تم ان کے معاملے کو نظر انداز کردو کیونکہ وہ ناپاک ہیں۔ “ رہی یہ حقیقت کہ آپ ﷺ کے دل میں کیا ہے اور آپ کی رائے کیا ہے تو اس کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (یومن باللہ ویومن للمومنین) ” وہ یقین کرتا ہے اللہ پر اور یقین کرتا ہے مومنوں کی بات پر “ جو سچے اور تصدیق کرنے والے ہیں اور وہ سچے اور جھوٹے کو خوب پہچانتا ہے اگرچہ وہ بہت سے ایسے لوگوں سے صرف نظر کرتا ہے جن کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ وہ جھوٹے ہیں اور ان میں سچائی معدوم ہے (ورحمۃ للذین امنوا منکم) ” اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو تم میں سے ایمان لائے “ کیونکہ وہی آپ کی وجہ سے راہ راست پر گامزن ہوتے اور آپ کے اخلاق کی پیروی کرتے ہیں۔ رہے اہل ایمان کے علاوہ دیگر لوگ تو انہوں نے اس رحمت کو قبول نہ کیا، بلکہ ٹھکرا دیا اور یوں وہ دنیا و آخرت کے گھاٹے میں پڑگئے۔ (والذین یوذون رسول اللہ) ” اور وہ لوگ جو (قول و فعل کے ذریعے سے) رسول اللہ کو دکھ دیتے ہیں۔ “ (لھم عذاب الیم) ” ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ “ دنیا و آخرت میں اور دنیا میں ان کے لئے دد ناک عذاب یہ ہے کہ آپ کو دکھ پہنچانے والے اور آپ کی شان میں گستاخی کرنے اور ایذا پہنچانے والے کی حتمی سزا قتل ہے۔ (یحلفون باللہ لکم لیرضوکم) ” وہ قسمیں کھتاے ہیں اللہ کی تاکہ تمہیں راضی کریں “ اور ان کی طرف سے جو ایذا رسانی ہوئی وہ اس سے بری ٹھہریں۔ پس ان کی غرض وغایت محض یہ ہے کہ تم ان سے راضی رہو۔ (واللہ و رسولہ احق ان یرضوہ ان کانوا مؤمنین) ” حالانکہ اللہ اور اس کا رسول اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ وہ ان کو راضی کریں اگر مومن ہوں “ کیونکہ بندہ مومن اپنے رب کی رضا پر کسی چیز کو ترجیح نہیں دیتا۔ یہ آیت ان کے ایمان کی نفی پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی رضا پر دوسروں کی رضا کو مقدم رکھا اور یہ اللہ تعالیٰ کی مخالفت اور کھلی دشمنی ہے اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے دشمنی رکھتا ہے اس کے لئے سخت وعید ہے۔ چناچہ فرمایا : (الم یعلموآ انہ من یحادد اللہ و رسولہ) ” کیا انہوں نے نہیں جانا کہ جو کوئی مقابلہ کرے اللہ سے اور اس کے رسول سے “ یعنی اللہ تعالیٰ کے اوامر کی اہانت و تحقیر اور اس کے محارم کے ارتکاب کی جسارت کر کے وہ اللہ اور اس کے رسول سے بہت دور اور ان کے مخالف ہوجائے (فان لہ نار جھنم خالدا فیھا ذلک الخزی العظیم) ” تو اس کے لئے جہنم کی آگ ہے اور اس میں وہ ہمیشہ رہے گا، یہ بڑی رسوائی کی بات ہے۔ “ جس سے بڑھ کر کوئی رسوائی نہیں، کیونکہ وہ دائمی نعمتوں سے محروم ہوگئے اور بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب حاصل کرلیا۔ ان کے حال سے اللہ کی پناہ !
Top