Tafseer-e-Saadi - At-Tawba : 66
لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ١ؕ اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآئِفَةٍ مِّنْكُمْ نُعَذِّبْ طَآئِفَةًۢ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا مُجْرِمِیْنَ۠   ۧ
لَا تَعْتَذِرُوْا : نہ بناؤ بہانے قَدْ كَفَرْتُمْ : تم کافر ہوگئے ہو بَعْدَ : بعد اِيْمَانِكُمْ : تمہارا (اپنا) ایمان اِنْ : اگر نَّعْفُ : ہم معاف کردیں عَنْ : سے (کو) طَآئِفَةٍ : ایک گروہ مِّنْكُمْ : تم میں سے نُعَذِّبْ : ہم عذاب دیں طَآئِفَةً : ایک (دوسرا) گروہ بِاَنَّهُمْ : اس لیے کہ وہ كَانُوْا : تھے مُجْرِمِيْنَ : مجرم (جمع)
بہانے مت بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو۔ اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف کردیں تو دوسری جماعت کو سزا بھی دینگے۔ کیونکہ وہ گناہ کرتے رہے ہیں۔
آیت 66 اس سورة کریمہ کو (الفاضحۃ) ” رسوا کرنے والی سورت “ کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے، کیونکہ اس نے منافقین کے بھید کھولے ہیں اور ان کے رازوں پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ” ان میں سے بعض “ ” ان میں سے بعض “ کہہ کر ان کے اوصاف بیان کئے ہیں۔ لیکن متعین طور پر اشخصا کے نام نہیں لئے، اس کے دو فائدے ہیں۔ (1) اللہ تعالیٰ ” ستار “ ہے وہ اپنے بندوں کے گناہوں کی پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے۔ (2) مذمت کا رخ ان تمام منافقین کی طرف ہے جو ان صفات سے متصف ہیں جس میں وہ بھی آگئے جو (بلاواسطہ) مخاطب تھے اور ان کے علاوہ قیامت تک آنے والے منافقین بھی اس میں شامل ہیں۔ اس اعتبار سے اوصاف کا تذکرہ زیادہ عمومیت کا حامل اور زیادہ مناسب ہے تاکہ لوگ خوب خائف رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” اگر منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جو مدینہ میں بری بری افواہیں پھیلاتے ہیں، اپنے کرتوتوں سے باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان کے پیچھے لگا دیں گے پھر وہ بہت تھوڑے دن ہی آپ کے پڑوس میں رہ سکیں گے۔ وہ دھتکارے ہوئے جہاں بھی پائے جائیں، پکڑے جائیں اور قتل کردیئے جائیں۔ “ اور یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے (آیت) ” منافقین اس بات سے ڈرتے ہیں کہ ان پر کوئی سورت نازل ہو جو ان کو جتا دے جو ان کے دلوں میں ہے “ یعنی وہ سورت ان کو ان کے کرتوتوں کے بارے میں آگاہ کر کے ان کی فضیحت کا سامان کرتی ہے اور ان کا بھید کھولتی ہے یہاں تک کہ ان کی کارستانیاں لوگوں کے سامنے عیاں ہوجاتی ہیں اور وہ دوسروں کے لئے سامان عبرت بن جاتے ہیں۔ (قل ساتھ زء وا) ” کہہ دو کہ ہنسی مذاق کئے جاؤ۔ “ یعنی استہزاء اور تمسخر کا تمہارا جو رویہ ہے اس پر قائم رہو (ان اللہ مخرج ماتحذرون) ” اللہ کھول کر رہے گا اس چیز کو جس سے تم ڈرتے ہو “ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کردیا اور یہ سورت نازل فرمائی جو ان کے کرتوت بیان کر کے ان کو رسوا کرتی ہے اور ان کے رازوں پر سے پردہ اٹھاتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : (ولئن سالتھم) ” اور اگر آپ ان سے دریافت کریں۔ “ اس بارے میں جو وہ مسلمانوں اور ان کے دین کی بابت طعن وتشنیع کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک گروہ غزوہ تبوک کے موقع پر کہتا تھا ” ہم نے ان جیسے لوگ نہیں دیکھے “ ان کی مراد نبی اکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب کرام تھے۔۔۔” جو کھانے میں پیٹو، زبان کے جھوٹے اور میدان جنگ میں بزدلی دکھانے والے ہیں۔ “ (1) جب انہیں یہ بات پہنچی کہ رسول اللہ ﷺ کو ان کی ہر زہ سرائی کا علم ہوگیا ہے تو معذرت کرتے اور یہ کہتے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے (انما کنا نخوص و نلعب) ” ہم تو بات چیت کرتے تھے اور دل لگی “ یعنی ہم تو ایک ایسی بات کہہ رہے تھے جس سے کسی کو نشانہ بنانا یا طعن اور رعیب جوئی ہمارا مقصود نہ تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کا عدم عذر اور ان کا جھوٹ واضح کرتے ہوئے فرمایا : (قل) ان سے کہہ دیجیے : (آیت) ” کیا تم اللہ سے، اس کے حکموں سے اور اس کے رسول سے ٹھٹھے کرتے تھے ؟ تم بہانے مت بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو۔ “ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ استہزاء اور تمسخر کفر ہے جو دائرہ اسلام سے خارج کردیتا ہے، کیونکہ دین کی اساس اللہ تعالیٰ ، اس کے دین اور اس کے رسول کی تعظیم پر مبنی ہے۔ ان میں سے کسی کے ساتھ استہزاء کرنا اس اساس کے منافی اور سخت متناقص ہے۔ بنا بریں جب وہ معذرت میں یہ بات کہتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ان سے اس سے زیادہ کچھ نہ فرمایا (آیت) ” کیا تم اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ دل لگی کرتے تھے ؟ اب معذرتیں نہ کرو تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کا ارتکاب کیا۔ “ فرمایا : (آیت) ” ان نعف عن طآئفۃ منکم) ” اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف بھی کردیں۔ “ ان کی توبہ و استغفار اور ان کی ندامت کی وجہ (1) تفسیر طبری، 220/6 سے (نعذب طآئفۃ ) ” تاہم بعض کو ضرور ہی عذاب دیں گے “ (بانھم) ” کیونکہ وہ “ یعنی اس سبب سے کہ ” کانوا مجرمین) ” وہ گناہگار تھے “ یعنی اپنے کفر و نفاق پر قائم ہیں۔ یہ آیات کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ جو کوئی اپنا بھید چھپاتا ہے خاص طور پر وہ بھید جس میں اللہ تعالیٰ کے دین کے خلاف سازش، اللہ تعالیٰ ، اس کی آیات اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ استہزاء ہو تو اللہ تعالیٰ اس بھید کو کھول دیتا ہے، اس شخص کو رسوا کرتا ہے اور اسے سخت سزا دیتا ہے اور جو کوئی کتاب اللہ اور اس کے رسول کی سنت ثابتہ کے ساتھ کسی قسم کا استہزا کرتا ہے، یا ان کا تمخسر اڑاتا ہے، یا ان کو ناقص گردانتا ہے، یا رسول اللہ ﷺ سے اتہزاء کرتا ہے یا آپ کو ناقص کہتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہر قسم کے گناہ کی توبہ قبول ہوجاتی ہے خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔
Top