Tafseer-e-Saadi - At-Tawba : 73
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّبِيُّ : نبی جَاهِدِ : جہاد کریں الْكُفَّارَ : کافر (جمع) وَالْمُنٰفِقِيْنَ : اور منافقین وَاغْلُظْ : اور سختی کریں عَلَيْهِمْ : ان پر وَمَاْوٰىهُمْ : اور ان کا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : جہنم وَبِئْسَ : اور بری الْمَصِيْرُ : پلٹنے کی جگہ
اے پیغمبر ﷺ ! کافروں اور منافقوں سے لڑو اور ان پر سختی کرو۔ اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے۔
آیت 73 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی ﷺ سے فرماتا ہے : (یا یھا النبی جاھد الکفار و المنفقین) ” اے پیغمبر ! کافروں اور منفاقوں سے جہاد کریں “ بھرپور جہاد (واغلظ علیھم) ” اور ان پر سختی کریں۔ “ جہاں حالات سختی کا تقاضا کریں وہاں سختی کیجیے۔ اس جہاد میں تلوار کا جہاد اور حجت و دلیل کا جہاد سب شامل ہیں۔ پس جو جنگ کرتا ہے اس کے خلاف ہاتھ، زبان اور شمشیر و سناں کے ذریعے سے جہاد کیا جائے اور جو کوئی ذمی بن کر یا معاہدہ کے ذریعے سے اسلام کی بالا دستی قبول کرتا ہے، تو اس کے خلاف دلیل وبرہان کے ذریعے سے جہاد کیا جائے۔ اس کے سامنے اسلام کے محسن اور کفر و شرک کی برائیاں واضح کی جائیں۔ پس یہ تو وہ رویہ ہے جو دنیا میں ان کے ساتھ ہونا چاہیے۔ (و) اور آخرت میں، تو (ماوءھم جھنم) ” اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے “ یعنی ان کی جائے قرار جہاں سے وہ کبھی نہیں نکلیں گے۔ (وبئس المصیر) ” اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ “ (آیت):” قسمیں کھاتے ہیں اللہ کی کہ انہوں نے نہیں کہا اور بیشک کہا ہے انہوں نے لفظ کفر کا “ یعنی جب انہوں نے اس شخص کی مانند بات کہی تھی جس نے یہ کہا تھا (لیخرجن الاعزمنھا الاذل) المنافقون :8/63) ” عزت دار، ذلیل لوگوں کو مدینہ سے باہر نکال دیں گے “ اور وہ باتیں اور رسول ﷺ کے ساتھ استہزاء کرتے ہوئے ایک کے بعد دوسرا کرتا تھا۔ جب ان کو یہ بات پہنچی کہ رسول اللہ ﷺ کو ان کی باتیں معلوم ہوگئی ہیں تو وہ قسمیں کھاتے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے کہ انہوں نے یہ بات ہرگز نہیں کہی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی تکذیب کرتے ہوئے فرماتا ہے : (ولقد قالوا کلمۃ الکفر و کفروا بعد اسلامھم) ” بیشک کہا ہے انہوں نے لفظ کفر کا اور منکر ہوگئے وہ اسلام لانے کے بعد “ گزشتہ وقت میں ان کے اسلام قبول کرنے نے اگرچہ ان کو اپنے منصوبے پر عمل کرنے سے روک دیا۔ (و) ” ان کا حال یہ ہے “ (مانقموآ) یعنی ” وہ رسول اللہ ﷺ پر صرف اس وجہ سے ناراض ہیں “ اور آپ کی عیب جوئی کرتے ہیں (آیت) ” کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے اللہ کے فضل سے ان کی محتاجی کے بعد ان کو غنی کردیا۔ “ یہ نہایت ہی عجیب بات ہے کہ وہ اس ہستی کی اہانت کریں جو ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لانے اور محتاجی کے بعد غنا کا سبب بنی کہ کیا ان پر اس ہستی کا حق نہیں کہ وہ اس کی تعظیم اور توقیر کریں اور اس پر ایمان لائیں ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے توبہ پیش کرتے ہوئے فرمایا : (فان یتوبوا یک خیراً لھم) ” پس اگر وہ توبہ کرلیں تو ان کے لئے بہتر ہے “ کیونکہ توبہ دنیا و آخرت کی سعادت کی اساس ہے۔ (وان یتولوا) ” اور اگر وہ منہ پھیر لیں۔ “ یعنی اگر وہ توبہ اور انابت سے منہ موڑ لیں۔ (یعذبھم اللہ عذاباً الیماً فی الدنیا و الاخرۃ) ” تو عذاب دے گا اللہ ان کو درد ناک عذاب دنیا اور آخرت میں “ دنیا میں ان کے لئے عذاب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے دین کو فتح و نصرت سے نوازتا ہے اور اپنے نبی ﷺ کو عزت عطا کرتا ہے اور یہ لوگ اپنا مقصد حاصل نہیں کرپاتے تو حزن و غم کا شکار ہوجاتے ہیں اور آخرت میں ان کو جہنم کا عذاب ملے گا۔ (وما لھم فی الارض من ولی) ” اور زمین میں ان کا کوئی دوست نہیں “ جو ان کے معاملات کی سرپرستی کرے اور ان کو ان کے مقصد تک پہنچائے (ولا نصیر) ” اور نہ کوئی مددگار “ جو تکلیف وہ امور کو ان سے دور کرے۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کی سرپرتی سے محروم ہوگئے تو پھر شر، خسران، بدبختی اور حرماں نصیبی ہی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔
Top