Siraj-ul-Bayan - Yunus : 25
وَ اللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِ١ؕ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
وَاللّٰهُ : اور اللہ يَدْعُوْٓا : بلاتا ہے اِلٰى : طرف دَارِ السَّلٰمِ : سلامتی کا گھر وَيَهْدِيْ : اور ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے وہ چاہے اِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
اور اللہ سل امتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے ‘ اور جسے چاہتا ہے ، سیدھی راہ دکھاتا ہے (ف 1) ۔
دنیا کی ایک مثال : (ف 1) دنیائے دوں ہزار لباس فاخرہ پہن کر جلوہ گر ہو ، مرد مومن سے اس کے عیوب پنہاں نہیں رہ سکتے وہ بالغ النظر ہوتا ہے ، اس کی نظریں محسن ظاہری سے گزر کر تبع باطن تک پہنچ جاتی ہیں ، مگر وہ لوگ جو صرف ظاہر پرست ہیں ، اس کے جلوؤں سے آنکھیں خیرہ کرلیتے ہیں ۔ اس آیت میں آرائش عالم کی کیفیت کو واضح صورت میں پیش کیا ہے ، اور بتایا ہے کہ دنیا کا جو پہلو تمہیں نظر آتا ہے ، وہ حسین نہیں ، غور سے دیکھو ، اس کے چہرہ پر سرور پر فنا اور موت کی کس قدر خوفناک جھریاں پڑی ہوئی ہیں ۔ آج جہاں دولت ہے کل افلاس ہے جس جگہ قصر ومحل تھے وہاں جھونپڑیاں نظر آرہی ہیں جنہیں مخمل و باغات پر قدم رکھنا مشکل تھا جو نازوتنعم کے آغوش میں پروان چڑھے ، آج آغوش لحد میں پڑے ہوئے ہیں ۔ ٍقرآن حکیم کی یہ مثال دنیا عبرت کے لئے بہترین مثال ہے ، دنیا ایک کھیت ہے ، ایک باغ ہے جو پانی برس جانے سے لہہا اٹھتا ہے ، اور سرسبز شاداب نظر آنے لگتا ہے ، پھل کثرت سے پیدا ہوتے ہیں ، مالک سمجھتا ہے کہ اب خوش بختی وخوش حالی میں کون میرا مقابلہ کرسکتا ہے ، کہ اچانک رات کو اللہ کا عذاب آجاتا ہے اور وہ ہرا بھرا باغ اجڑ جاتا ہے ، دنیا کی یہ کس قدر صحیح مثال ہے مگر دیدہ عبرت کہاں جو تماشہ کرے ۔ حل لغات : لم تغن : غنی یغنی ، اس کے معنی باقی رہنے اور قیام کے ہیں ۔ صفائی کے معنی قیام گاہیں ۔ بالامس : سے مراد ماضی قریب کا زمانہ ہے ، قتر : بمعنی گردوغبار ۔
Top