Bayan-ul-Quran - Hud : 6
وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ احْذَرُوْا١ۚ فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّمَا عَلٰى رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ
وَاَطِيْعُوا : اور تم اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَ : اور اَطِيْعُوا : اطاعت کرو الرَّسُوْلَ : رسول وَاحْذَرُوْا : اور بچتے رہو فَاِنْ : پھر اگر تَوَلَّيْتُمْ : تم پھر جاؤگے فَاعْلَمُوْٓا : تو جان لو اَنَّمَا : صرف عَلٰي : پر (ذمہ) رَسُوْلِنَا : ہمارا رسول الْبَلٰغُ : پہنچادینا الْمُبِيْنُ : کھول کر
اور خدا کی فرمانبرداری اور رسول خدا کی اطاعت کرتے رہو اور ڈرتے رہو۔ اگر منہ پھیرو گے تو جان رکھو کہ ہمارے پیغمبر ﷺ کے ذمے تو صرف پیغام کا کھول کر پہنچا دینا ہے۔
آیت نمبر 94, 93, 92 تفسیر :(واطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واحذروا اور حکم مانو اللہ کا حکم مانو رسول اللہ ﷺ کا اور بچتے رہو) حرام چیزوں اور جن کاموں سے روکا گیا ان کے کرنے سے ( فان لولیتم فاعلموا انما علی رسولنا البغ المبین پھر اگر تم پھر جائو گے تو جان لو کہ ہمارے رسول کا ذمہ صرف پہنچا دینا ہے کھول کر) شراب پینے والے کی وعید میں ابن عمر رضی ؓ سے حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر نشہ دینے والی چیز حرام ہے اور اللہ پر پختہ بات ہے کہ جو آدمی دنیا میں اس کو پئے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو طینۃ الخبال پلائیں گے اور تم جانتے ہو کہ طینۃ الخبال کیا ہے ؟ جہنمیوں کا پسینہ اور ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ بیشک نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے دنیا میں شراب پی اور توبہ نہیں کی تو آخرت میں اس سے محروم رہے گا۔ عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا کہ وہ فرما رہے تھے اللہ نے لعنت کی شراب اور اس کے پینے والے اور پلانے والے اور اس کے بیچنے والے اور اس کے خریدنے والے اور اس کے نچوڑنے والے اور نچڑوانے والے اور اس کے اٹھانے والے اور جس کی طرف اٹھائی جائے اور اس کی قیمت کھانے والے پر۔ (لیس علی الذین امنوا وعملوا الصلحت جناح فیما طعموا جو لوگ ایمان لائے اور کام نیک کیے ان پر گناہ نہیں اس میں جو پہلے کھاچکے) اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے شراب کی حرمت نازل ہونے کے بعد سوال کیا۔ اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ ہمارے جو بھائی وفات پا گئے اور وہ شراب پیتے تھے اور جوئے کا مال کھاتے تھے تو ان کا کیا معاملہ ہوگا ؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی۔ (جو پہلے کھاچکے) اور شراب پی چکے اور جوئے کا مال کھاچکے ( اذا مااتقوا جب کہ آئندہ کو ڈر گئے ) شرک سے (وامنوا اور ایمان لائے یعنی تصدیق کی) (وعملوا الصلحت ثم اتقوا اور عمل نیک کیے پھر ڈرتے رہے) شراب اور جوئے سے ان کے حرام ہوجانے کے بعد (وامنو ثم اتقوا پھر یقین کیا پھر ڈرتے رہے) ان چیزوں سے جن کا کھنا پینا اللہ تعالیٰ نے ان پر حرام کیا ( واحسنوا ط واللہ یحب المحسنین اور نیکی کی اور اللہ دوست رکھتا ہے نیکی کرنے والوں کو) اور کہا گیا ہے کہ پہلے کا معنی یہ ہے کہ جب شرک سے ڈرے اور یقین کیا اور تصدیق کی پھر ڈرتے رہے یعنی اس تقویٰ پر ہمیشگی رکھی اور ایمان لائے اور ایمان میں اضافہ ہوا پھر تمام گناہوں سے ڈرے اور نیک کام کیے اور کہا گیا ہے کہ وہ ڈرے احسان کے ساتھ اور ہر نیک کام کرنے والا متقی ہے اور اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ (یایھا الذین امنوا لیبلونکم اللہ بشیء من الصید اے ایمان والو ! البتہ تم کو آزمائے گا اللہ ایک بات سے اس شکار میں ) یہ آیت حدیبیہ کے سال نازل ہوئی کہ صحابہ کرام ؓ احرام میں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی شکار سے آزمائش کی وہ اس طرح کہ نیل گائے وہاں اتنی کثرت سے تھیں کہ ان کے کجاوں کو گھیر لیتی تھیں تو صحابہ کرام ؓ نے ان کو پکڑنے کا ارادہ کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اس آزمائش کا فائدہ اپنی اطاعت کرنے والے کو ظاہر کرنا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کو شکار میں آزمائش کی حاجت نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ” بشیئ “ کی قید لگائی کیونکہ صحابہ ؓ کی آزمائش صرف خشکی کے شکار سے ہوئی تھی ( تنالہ ایدیکم جس پر پہنچتے ہی ہاتھ تمہارے) یعنی پرندوں کے بچے اور انڈے اور وہ چھوٹے شکار جو بھاگ نہ سکیں ( ورما حکم اور تمہارے نیزے) یعنی بڑے شکار ( لیعلم اللہ تاکہ معلوم کرے اللہ) تاکہ لوگوں کو دکھا دے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو پہلے سے علم ہے ( من یخافہ بالغیب کون اس سے ڈرتا ہے بن دیکھے) یعنی اس کو دیکھ بغیر ڈرتا ہے اور احرام کی حالت میں شکار نہیں کرتا ( بمفن اعتدی بعد ذلک پھر جس نے زیادتی کی اس کے بعد) یعنی حرمت نازل ہونے کے بعد شکار کیا ( فلہ عذاب الیم تو اس کے لیے عذاب درد ناک ہیض ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اس کے کپڑے اتار لیے جائیں اور اس کی پیٹھ اور پیٹ پر کوڑے مارے جائیں۔
Top