Siraj-ul-Bayan - Hud : 37
وَ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا وَ لَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا١ۚ اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ
وَاصْنَعِ : اور تو بنا الْفُلْكَ : کشتی بِاَعْيُنِنَا : ہمارے سامنے وَوَحْيِنَا : اور ہمارے حکم سے وَلَا تُخَاطِبْنِيْ : اور نہ بات کرنا مجھ سے فِي : میں الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا : جن لوگوں نے ظلم کیا (ظالم) اِنَّهُمْ : بیشک وہ مُّغْرَقُوْنَ : ڈوبنے والے
اور تو ہماری وحی کے موافق اور ہماری آنکھوں کے سامنے کشتی بنا ، اور ہم سے ظالموں کی نسبت نہ بول ، کہ وہ غرق ہوں گے (ف 1) ۔
1) نوح (علیہ السلام) کی قوم نے جب بہت زیادہ مخالفت کی اور پندوعظ سے کامل بیزاری کا اظہار کیا ، تو اللہ کا غضب بھڑکا ، ارشاد ہوا ، کشتی طیار کرو ، ایک عذاب بھیجا جائے گا ، جس سے یہ ہمکنار ہوں گے اور بچ نہیں سکیں گے ، اور جو لوگ اس قابل ہیں کہ صفحہ ہستی سے مٹا دیئے جائیں ، ان کے متعلق سفارش نہ کی جائے ، کیونکہ منشاء ایزدی یہ ہے کہ کفر کا مکمل استیصال کردیا جائے ، اور انہیں بتا دیا جائے کہ خدا کی زمین پر ایسے مجرموں کو بےصرف اور آسائش سے رہنے کا کوئی حق نہیں ، اللہ تعالیٰ زمین کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کرنا چاہتا ہے ۔ ” ربا عیننا “۔ سے غرض نگرانی ہے یعنی ہماری ہدایات کے مطابق یہ مجازی استعمال ہے ، قرآن حکیم ہیں اس نوع کے جس قدر الفاظ وارد ہوئے ہیں ، سب میں مجازی رنگ ہے ، ورنہ وہ تو خود آنکھیں بخشتا ہے ، اور آنکھوں میں نور پیدا کرتا ہے اسے آنکھوں کی حاجت نہیں ، وہ بغیر آلات وجوارح کے کامل ہے ۔
Top