Siraj-ul-Bayan - Hud : 44
وَ قِیْلَ یٰۤاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَكِ وَ یٰسَمَآءُ اَقْلِعِیْ وَ غِیْضَ الْمَآءُ وَ قُضِیَ الْاَمْرُ وَ اسْتَوَتْ عَلَى الْجُوْدِیِّ وَ قِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
وَقِيْلَ : اور کہا گیا يٰٓاَرْضُ : اے زمین ابْلَعِيْ : نگل لے مَآءَكِ : اپنا پانی وَيٰسَمَآءُ : اور اے آسمان اَقْلِعِيْ : تھم جا وَغِيْضَ : اور خشک کردیا گیا الْمَآءُ : پانی وَقُضِيَ : اور پورا ہوچکا (تمام ہوگیا) الْاَمْرُ : کام وَاسْتَوَتْ : اور جا لگی عَلَي الْجُوْدِيِّ : جودی پہاڑ پر وَقِيْلَ : اور کہا گیا بُعْدًا : دوری لِّلْقَوْمِ : لوگوں کے لیے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور کہا گیا اے زمین اپنا پانی نگل جا ، اور اے آسمان ٹھہر جا ، اور پانی سکھا دیا گیا ، اور کام پورا ہوگیا ، اور کشتی کوہ وجودی پر ٹھہر گئی ، اور کہا گیا ظالم دور ہوں (ف 2) ۔
قرآن کی بلیغ ترین آیت : (ف 2) اس پانی کے طوفان میں تمام منکرین خس و خاشاک کی طرح بہ گئے ، ان کا غرور انکے کام نہ آسکا ، اور خدا کے غضب سے سب غرق ہوگئے ، اس آیت میں قرآن حکیم نے طوفان تھم جانے کی تصویر جن الفاظ میں کھینچی ہے وہ بلاغت کا حیرت انگیز مرقع ہے ، علماء نے اس آیت کے اسرار ونکات پر کتابیں لکھی ہیں ، اس کی معنوی اور لفظی خوبیاں اس قدر حیران کن ہیں ، کہ ہر پڑھا لکھا انسان اعتراف کرتا ہے علامہ ابوحیان اندلسی نے نے بدیع کی اکیس قسموں کو اس میں جلوہ گر دیکھا ہے ، سید محمد بن اسمعیل نے اس ایک مخصوص رسالہ لکھا ہے ، زمخشری جو اسرار و رموز ادب کا سب سے بڑا ماہر ہے ، دلائل الاعجاز میں صفحے کے صفحے لکھ گیا ہے ۔ اس آیت کے الفاظ کا نظم ونسق اتنا بہتر ہے کہ واقع کی تصویر کھینچ جاتی ہے ، اگر تم ترنم وترتیل کے آیت کی تلاوت کرو ، تو معلوم ہوگا ، کہ بادوباراں کا ایک طوفان ہے ، جو تھمتا ہوا نظر آ رہا ہے وہی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔ حل لغات : ابلعی : بلغ یبلع ۔
Top