Siraj-ul-Bayan - Hud : 87
قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْۤ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُا١ؕ اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ
قَالُوْا : وہ بولے يٰشُعَيْبُ : اے شعیب اَصَلٰوتُكَ : کیا تیری نماز تَاْمُرُكَ : تجھے حکم دیتی ہے اَنْ : کہ نَّتْرُكَ : ہم چھوڑ دیں مَا يَعْبُدُ : جو پرستش کرتے تھے اٰبَآؤُنَآ : ہمارے باپ دادا اَوْ : یا اَنْ نَّفْعَلَ : ہم نہ کریں فِيْٓ اَمْوَالِنَا : اپنے مالوں میں مَا نَشٰٓؤُا : جو ہم چاہیں اِنَّكَ : بیشک تو لَاَنْتَ : البتہ تو الْحَلِيْمُ : بردبار (باوقار) الرَّشِيْدُ : نیک چلن
بولے اے شعیب (علیہ السلام) ، کیا تیری نماز نے تجھے یہ سکھلایا ، کہ ہم ان کو چھوڑ دیں جن کو ہمارے بڑے پوجتے تھے یا یہ کہ ہم اپنے مالوں میں جو چاہیں ‘ نہ کریں ، تو تو بڑا برد بار نیک ہے (ف 1) ۔
اکل حلال : (ف 1) حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جب توحید کی طرف قوم کو بلایا ، خدا پرستی کی تلقین کی اور کہا کہ عقیدہ تو حید عام اعمال میں بھی نظر آنا چاہئے پورا تول کر دو اور پورا ناپ کرلو ، تو انہوں نے از راہ بدبختی کہا واہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے کل مال و دولت میں تمہارے تصرفات کو مان لیں ہم جیسا چاہیں گے کریں گے ، اس کے بعد یہ کہہ کر حضرت شعیب (علیہ السلام) کی کچھ چاپلوسی کی ہے ، کہ تم نہایت بردبار اور نیک ہو ، یہ تجارت اور بزنس کے داؤں گھات ہیں تم کیا جانو ، یہ کیا ہیں اس لئے ان چیزوں کی مخالفت نہ کرو ، اور دخل در معقولات سے باز آجاؤ ۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے تو اکل حلال کی تلقین ، کی ، کیونکہ اکل حلال ہی سے صحیح مذہبی روح باقی رہتی ہے ، دل میں جذبات پاکیزہ رہتے ہیں دین کے لئے دلوں میں جوش اور حمیت رہتی ہے ، روح کی بالیدگی اور اعمال کی پاکیزگی کا یہ اولین وسیلہ ہے یہی اصل ریاضت ہے عبادت کی جان ہے اور دین کا اساس ، مگر قوم نے اس کی مخالفت کی اور حرام کھانے کی ٹھان لی ، اس لئے کہ اکل حلال میں مشکلات ہیں ، لوٹنے اور ناجائز طریقوں سے مال حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا ، نفسانی آسائشیں فراوانی سے میسر نہیں ہوتیں یہ لوگ چونکہ محنت کے عادی نہ تھے راحت طلب اور ہوائے نفس کے تابع تھے ، اس لئے شعیب (علیہ السلام) کی دعوت قبول کرنے سے محروم رہے ۔
Top