Siraj-ul-Bayan - Al-Hijr : 88
لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ
لَا تَمُدَّنَّ : ہرگز نہ بڑھائیں آپ عَيْنَيْكَ : اپنی آنکھیں اِلٰى : طرف مَا مَتَّعْنَا : جو ہم نے برتنے کو دیا بِهٖٓ : اس کو اَزْوَاجًا : کئی جوڑے مِّنْهُمْ : ان کے وَلَا تَحْزَنْ : اور نہ غم کھائیں عَلَيْهِمْ : ان پر وَاخْفِضْ : اور جھکا دیں آپ جَنَاحَكَ : اپنے بازو لِلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے لیے
ان کافروں کو جن کو کئی طرح کی نعمتوں کے ساتھ ہم نے بہر مند کیا ہے تو (اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی آنکھیں ان نعمتوں کی طرف نہ پسار اور ان پر غم نہ کر اور اپنے بازو مؤمنین کے لئے جھکا ، ۔ (ف 3)
حضور ﷺ کی سیرت کے دو پہلو : (ف 3) قرآن حکیم کے جس قدر احکام میں حضور ﷺ کو مخاطب کیا گیا ہے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ حضور ﷺ کے عمل کی یہ تصویر ہے ، اور امت کو ان کے اسوہ کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس آیت میں حضور ﷺ کی سیرت کے دو پہلو بیان کئے گئے ہیں ، ایک تو یہ کہ آپ دنیا کے تکلفات پر ریجھے ہوئے نہیں طبیعت میں انتہاء درجہ کا استغا ہے ، اور ایک یہ کہ آپ مسلمانوں کے لئے آیہ رحمت ہیں آپ کے دل میں امت کے لئے شفقت کا بےپناہ جذبہ موجزن ہے ۔ غور فرمائیے ، حضور دعوت عام دے چکے ہیں ، مخالفت کی آگ بھڑک چکی ہے ، لوگوں نے ابو طالب سے کہ اپنے بھتیجے کو سمجھا لو ، ورنہ ہم تم سے بھی تعرض کریں گے ، ابوطالب نے آکر حضور ﷺ کو حقیقت حال سے آگاہ کیا آپ نے فرمایا چچا اگر وہ میرے داہنے ہاتھ پر آفتاب اور بائیں ہاتھ ماہتاب رکھ دیں ، جب بھی میں دعوت توحید سے نہیں رک سکتا ، کس قدر استغنا ہے قوم سونے چاندی کے ڈھیر نذر کرتی ہے حسین و جمیل رشتے پیش کئے جاتے ہیں مگر حضور آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے ، رحمت ورافت کا یہ عالم ہے ، کہ وہ لوگ جو منافق ہیں ، آپ کو تکلیفیں پہنچاتے ہیں ، ان سے ہر طرح اغماض وچشم پوشی کرتے ، عبداللہ ابن ابی مرتا ہے ، تو آپ پیراہن مبارک تبرک کے لئے بھیج دیتے ہیں ۔
Top