Siraj-ul-Bayan - An-Nahl : 110
ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِیْنَ هَاجَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰهَدُوْا وَ صَبَرُوْۤا١ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
ثُمَّ : پھر اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے هَاجَرُوْا : انہوں نے ہجرت کی مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : کہ فُتِنُوْا : ستائے گئے وہ ثُمَّ : پھر جٰهَدُوْا : انہوں نے جہاد کیا وَصَبَرُوْٓا : اور انہوں نے صبر کیا اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب مِنْۢ بَعْدِهَا : اس کے بعد لَغَفُوْرٌ : البتہ بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
پھر تیرا رب ان کے لئے جنہوں نے ایذا دیئے جانے کے بعد ہجرت کی ، پھر جہاد کیا اور ثابت قدم ہو کے لڑے ، ان باتوں کے بعد تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے (ف 1) ۔
اسلام جرات آموز ہے ! (ف 1) یعنی وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی راہ میں مصیبتوں کو برداشت کیا ، جنہوں نے گھر اور وطن کی آسائشوں کو چھوڑا جنہوں نے مسافرت اور ہجرت اختیار کی جنہوں نے نفس اور باطل قوتوں کے خلاف جہاد کیا ، ان کے لئے اللہ کی بخششیں اور عنائتیں ہیں وہی اس کی مغفرت اور رحمت کے مستحق ہیں ۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بحالات مجبوری شر سے محفوظ رہنے کے لئے کفر کا اظہار جائز ہے ، بہتر نہیں ، یعنی اللہ ایسے اہل کفر پر مواخذہ نہیں کرے گا ، مگر اس کے یہ معنی نہیں ، کہ یہ فضیلت کی چیز ہے ، اس جواز کو جو مخصوص حالات میں قابل استفادہ ہے عام کردینا ، اور اسے فضیلت دینا دین فطرت کی توہین کرنا ہے ۔ اسلام جرات اور اظہار حق کو بہترین فضیلت قرار دیتا ہے ، وہ مسلمان کو مجاہد دیکھنا چاہتا ہے جو پوری جسارت کے ساتھ باطل کے خلاف صف آراء ہو سکے ، اور جو بزدل ہے ، جہاد سے جی چراتا ہے ، مجاہد نہیں کہلا سکتا ، یہ کمزوری اور بزدلی کا کھلا اعتراف ہے ، اسلام خفیہ فریب کاریوں کا قطعا پسند نہیں کرتا ، اس کی تعلیم واضح اور بین ہے وہ ہرگز تعلیمات و عقائد کو چھپانا نہیں چاہتا ۔
Top