Siraj-ul-Bayan - An-Nahl : 51
وَ قَالَ اللّٰهُ لَا تَتَّخِذُوْۤا اِلٰهَیْنِ اثْنَیْنِ١ۚ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَاِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
وَقَالَ : اور کہا اللّٰهُ : اللہ لَا تَتَّخِذُوْٓا : نہ تم بناؤ اِلٰهَيْنِ : دو معبود اثْنَيْنِ : دو اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں هُوَ : وہ اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : یکتا فَاِيَّايَ : پس مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : تم مجھ سے ڈرو
اور اللہ نے کہا ہے ، کہ وہ معبود نہ ٹھہراؤ وہ معبود ایک (ہی) ہے ، سو مجھی سے ڈرو (ف 2) ۔
ثنویت کا عقیدہ غلط ہے ! (ف 2) اسلام توحید کا دین ہے ، وہ کہتا ہے جب ساری کائنات اللہ کی مطیع ہے ، تو پھر کیونکر دو خداؤں کا تخیل ممکن ہوسکتا ہے ، ثنویت کا عقیدہ اول اول ایران سے نکلا ہے ، ان کے نزدیک کائنات میں دو قسم کے عناصر ہیں ، شروخیر ، شر کا خدا اور ہے ، خیر کا اور ، قرآن اس مجوسیت کا منکر ہے ، وہ کہتا ہے صرف ایک خدا کا وجود عقلا ممکن ہے ، کیونکہ کائنات میں ایک قانون ایک ارادہ اور ایک مشیت کار فرما ہے ، کائنات کے مظاہر میں اختلاف وثنویت نہیں ۔ لہذا دو خداؤں کا وجود عقل وبصیرت کی رو سے صحیح نہیں ۔ دنیا میں اگر دو خدا ہوں ، یا زیادہ تو پھر لازم آئے گا کہ دو باہم مختلف اراء سے دنیا میں کام کر رہے ہیں ، اور اس صورت میں دنیا کا نظام درہم برہم ہوجائے گا ، کائنات کے نظام میں چونکہ وحدت اور یکسائی ہے ، ہر چیز کے لئے ایک وقت اور کیفیت مقرر ہے جس میں خلاف نہیں ہوتا ، اس لئے خدا بھی ایک ہے ، نیز صحیح وجدان دو خداؤں کے تخیل کو قطعی طور پر قبول نہیں کرسکتا ، وجدان کہتا ہے ، قلب کی گہرائیوں میں ایک ہی محبوب جلوہ گر ہے ۔
Top