Siraj-ul-Bayan - Al-Kahf : 84
اِنَّا مَكَّنَّا لَهٗ فِی الْاَرْضِ وَ اٰتَیْنٰهُ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ سَبَبًاۙ
اِنَّا مَكَّنَّا : بیشک ہم نے قدرت دی لَهٗ : اس کو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے اسے دیا مِنْ : سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے سَبَبًا : سامان
ہم نے اسے زمین میں قدرت دی اور ہر شے کا سامان بھی اسے دیا (ف 1) ۔
1) قرآن حکیم نے بتایا ہے کہ یہودیون کے تعلقات مشرکین مکہ سے بہت زیادہ تھے ، بنا برین مشرکین مکہ ان سے اسلام کے متعلق اعتراضات پوچھتے رہتے ، انہوں نے کہا ہوگا پیغمبر اسلام سے ذوالقرنین کے متعلق دریافت کرو ، تاکہ معلوم ہو کہ اس کا مبلغ علم کیا ہے ۔ چنانچہ انہوں نے حضور ﷺ سے پوچھا ، یہ آیات جواب میں نازل ہوئیں ۔ قرآن حکیم کا مخصوص طرز بیان ہے ، کہ وہ غیر ضروری تفصیلات کو چھوڑ دیتا ہے اور قصے کے صرف اس حصہ کو بیان کرتا ہے جس کا تعلق انسانی رشد وہدایت سے ہے ، چنانچہ قرآن حکیم نے بتایا ، کہ خدائے تعالیٰ نے اسے وسیع اقتدار دے رکھا تھا ، وہ بہت بڑا فاتح تھا ، اس کا شوق فتحیابی اسے سمندر کے کنارے تک لے گیا ، جہاں اس نے سورج کو دیکھا ، کہ گولے پانی میں ڈوب رہا ہے یعنی وہ خشکی سے بہت دور ہے ، وہاں ایک قوم آباد تھی ، اس نے درخواست کی کہ ہم سے ظالمانہ سلوک نہ کیا جائے ہم مروت و احسان کے خواہشمند ہیں ، ذوالقرنین نے انہیں تسلی دی اور کہا تم غم نہ کھاؤ میں نیکوکاروں سے نیک سلوک کروں گا ۔ حل لغات : ذوالقرنین : قون وسعت یا حصہ اقتدار سے تعبیر ہے ۔ حضور ﷺ نے حضرت سے کہا تھا ” ان لک بیتا فی الجنۃ وانت ذوقرینھا “۔ مکنا : مکنت سے ہے جس کے معنی قدرت اور توانگری کے ہیں ۔ تعرب : مراد یہ ہے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا ، اسی لئے وجدھا کا لفظ استعمال کیا ہے ۔
Top