Siraj-ul-Bayan - Al-Baqara : 104
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْا١ؕ وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يَا اَيُّهَا الَّذِیْنَ : اے وہ لوگو جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَقُوْلُوْا : نہ کہو رَاعِنَا : راعنا وَقُوْلُوْا : اور کہو انْظُرْنَا : انظرنا وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَلِلْکَافِرِیْنَ ۔ عَذَابٌ : اور کافروں کے لیے۔ عذاب اَلِیْمٌ : دردناک
مومنو ! تم (رسول کریم ﷺ کو) راعنا نہ کہا کرو اور انظرنا کہا کرو ، اور سنتے رہو ، اور کافروں کے لئے دکھ کا عذاب ہے (ف 1)
حرمت رسول : (ف 1) مسلمانوں کے نزدیک حب رسول ﷺ وہ گرانمایہ متاع ہے جس سے وہ کسی حالت میں بھی دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا ، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ والہانہ شیفتگی اصل ایمان ہے ، صحابہ کرام ؓ اجمعین جب دربار رسالت میں ہوتے اور مختلف مسائل کے سلسلہ میں حضور ﷺ کی توجہ عالی کو اپنی طرف مبذول کرانا ہوتا تو کہتے (آیت) ” راعنا “۔ کہ حضور ﷺ ہمارا بھی خیال رہے لیکن بدباطن اور بدعقیدہ یہودی مسلمانوں کی اس عقیدت کو برداشت نہ کرسکے ، انہوں نے از راہ تمسخر وتحقیر راعنا ، کہنا شروع کردیا ، جس کے معنی ان کے ہاں کم عقل کے ہوتے ہوتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، تم اس موقع پر (آیت) ” انظرنا “ کہا کرو ، یعنی دیکھئے تو ، اس میں انہیں خبث باطن کے اظہار کا کوئی موقع نہیں ملے گا ، اس آیت سے حرمت رسول ﷺ کی حفاظت مقصود ہے اور یہ تلقین ہے کہ کوئی ایسا کلمہ جو توہین کا موہم بھی ہو ‘ حضور ﷺ کے لئے استعمال نہ کرو ، ایسا نہ ہو کہ دلوں سے عقیدت مندی وارادت کے جذبات محو ہوجائیں اور بجائے ایمان کے نرا کفر ہمارے حصہ میں آئے ،
Top