Siraj-ul-Bayan - Al-Hajj : 19
هٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّهِمْ١٘ فَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ١ؕ یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِیْمُۚ
ھٰذٰنِ : یہ دو خَصْمٰنِ : دو فریق اخْتَصَمُوْا : وہ جھگرے فِيْ رَبِّهِمْ : اپنے رب (کے بارے) میں فَالَّذِيْنَ : پس وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا قُطِّعَتْ : قطع کیے گئے لَهُمْ : ان کے لیے ثِيَابٌ : کپڑے مِّنْ نَّارٍ : آگ کے يُصَبُّ : ڈالا جائے گا مِنْ فَوْقِ : اوپر رُءُوْسِهِمُ : ان کے سر (جمع) الْحَمِيْمُ : کھولتا ہوا پانی
یہ دو (مومن وکافر) مدعی ہیں ، اپنے رب میں جھگڑا کرتے ہیں ، سو وہ کافر ہیں ، ان کے لئے آگ کے کپڑے قطع کئے جائیں گے ، ان کے سروں پر کھولتا پانی ڈالا جائے گا ، (ف 2) ۔
دو مخالف گروہ : (ف 2) ” ھذن خصمن “۔ سے مراد دو گروہ ہیں ، ایک اہل معصیت دوسرا اہل خیر ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، نتیجے اور ثمرے کے لحاظ سے یہ دونوں گروہ برابر نہیں ، پہلا گروہ اپنے اعمال بد کی وجہ سے جہنم میں جائے گا ، اور سخت ترین اذیتیں اٹھائے گا ، دوسرا گروہ جنت کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوگا ، اور اللہ کا شکر گزار ہوگا ۔ (آیت) ” قطعت لہم ثیاب من نار “۔ سے مراد یہ ہے کہ جہنم کی آگ ان کے چاروں طرف احاطہ کرئے گی ، گویا انہیں آگ کے پیراہن پہنائے گی ، یہ ایک تشبیہ ہے ، جس طرح دوسری جگہ فرمایا ہے ۔ (آیت) ” لھم من جھنم مھاد ومن فوقہم غواش “۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اگر اس آگ کی ایک چنگاری بھی دنیا کے پہاڑوں پر گرے تو ان کو جلا ڈالے ۔ غرض یہ ہے کہ عذاب شدید مکمل طور پر ہوگا ۔ مجرمین کی کڑی نگرانی کی جائے گی ، فرشتے لوہے کے ہتھوڑوں سے ان کی خبر لیں گے ، اور جب یہ مجرمین اس آتشکدہ غم و حسرت سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو پھر ناکامی ونامرادی کے ساتھ لوٹا دیئے جائیں گے ، جہنم کی یہ کیفیات دل میں سخت خوف اور ہول پیدا کردیتی ہیں ، اور یہ اسی لئے بیان کی گئی ہیں ، کہ منکرین کی قساوت قلبی دور ہو اور وہ عذاب آلہی کے نام سے کانپ اٹھیں ، اس دنیا میں یہ معلوم کرنا ، کہ ان کیفیات کی تفصیل کیا ہے ، ناممکن ہے ، قرآن حکیم نے تو سزا کا صرف وہ پہلو ذکر کیا ہے ، جو مجرموں اور گناہ گاروں کے لئے عبرت اور موعظت کا باعث ہو سکے اور بس اس کے بعد اہل جنت کا ذکر ہے ، کہ یہ لوگ عزت و آرام سے رہیں گے اور تمام لذائذ ، اور ان تکلفات سے دو چار ہوں گے ، جنہیں یہ دین کے لئے دنیا میں چھوڑ چکے تھے ۔ فرمایا ، ان لوگوں نے چونکہ دنیا کی زندگی میں قول طیب کو مان لیا تھا ، اور صراط حمید کی پیروی اختیار کی تھی ، اسی لئے آج نعمتوں اور لذتوں سے نوازے جارہے ہیں ۔ حل لغات : الدوآب : دابۃ کی جمع ہے ، بمعنی حیوان ، چوپایہ ، زمین پر چلنے والا ہر جانور ، خصمن : دو مخالف ، الحمیم : کھولتا ہوا پانی ، یصھر : سہر سے ہے ، جس کے معنے لگنے کے ہیں ۔ اساور : اسوار کی جمع ہے ، بمعنے کلائی میں پہننے کا زیور ، کنگن ۔
Top