Jawahir-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 82
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَهُوْدَ وَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا١ۚ وَ لَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰى١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَ رُهْبَانًا وَّ اَنَّهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ
لَتَجِدَنَّ : تم ضرور پاؤگے اَشَدَّ : سب سے زیادہ النَّاسِ : لوگ عَدَاوَةً : دشمنی لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا : اہل ایمان (مسلمانوں) کے لیے الْيَھُوْدَ : یہود وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا : اور جن لوگوں نے شرک کیا وَلَتَجِدَنَّ : اور البتہ ضرور پاؤگے اَقْرَبَهُمْ : سب سے زیادہ قریب مَّوَدَّةً : دوستی لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ان کے لیے جو ایمان لائے (مسلمان) الَّذِيْنَ قَالُوْٓا : جن لوگوں نے کہا اِنَّا : ہم نَصٰرٰى : نصاری ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّ : اس لیے کہ مِنْهُمْ : ان سے قِسِّيْسِيْنَ : عالم وَرُهْبَانًا : اور درویش وَّاَنَّهُمْ : اور یہ کہ وہ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر نہیں کرتے
تو پاوے گا142 سب لوگوں سے زیادہ دشمن مسلمانوں کا یہودیوں کو اور مشرکوں کو اور پاوے گا143 سب سے نزدیک محبت میں مسلمانوں کے ان لوگوں کے جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں یہ اس واسطے144 کہ نصاریٰ میں عالم ہیں اور درویش ہیں اور اس واسطے کہ وہ تکبر نہیں کرتے
142 نزول قرآن کے وقت تین جماعتیں اسلام کی مخالف تھیں یہود و نصاریٰ اور مشرکین، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے خلاف شدت عداوت کے اعتبار سے ان کی درجہ بندی فرما دی۔ شدتِ عداوت میں یہودی سب سے پہلے درجہ پر ہیں اور وہ دنیا میں مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ دوسرے درجے پر مشرکین ہیں۔ دو جماعتوں کا صراحت سے ذکر فرمایا۔ اور تیسری جماعت یعنی نصاریٰ کا حال خود بخود معلوم ہوگیا کہ تیسرے درجے پر نصاریٰ مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ 143 ھُمْ ضمیر اَلنَّاس کی طرف راجع ہے۔ مسلمانوں کے دشمنوں کی درجہ بندی کرنے کے بعد مسلمانوں سے محبت اور دوستی کرنیوالوں کا ذکر فرمایا۔ یعنی آنحضرت ﷺ کے زمانے میں جو لوگ موجود تھے ان میں مسلمانوں کی محبت سب سے زیادہ حبشہ کے ان عیسائیوں کے دلوں میں تھی جنہوں نے مہاجرین حبشہ سے قرآن اور آنحضرت ﷺ کی تعلیمات سن کر اسلام قبول کرلیا تھا۔ ان کی نرم دلی کا یہ حال تھا کہ جب ان کے سامنے قرآن پڑھا گیا تو وہ اس سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اس آیت میں نصاریٰ سے حبشہ کے بادشاہ نجاشی اور دوسرے وہ عیسائی مراد ہیں جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ اس سے تمام عیسائی مراد نہیں ہیں کیونکہ باقی عیسائی بھی مسلمانوں کے اسی طرح دشمن تھے جس طرح یہود اور مشرکین۔ لم یرد بہ جمیع النصاری لانہم فی عداوۃ المسلمین کالیھود فی قتلھم المسلمین واسرھم وتخریب بلادھم وھدم مساجدھم واحراق مصاحفھم لا وکرامۃ لھم بل الایۃ فیمن اسلم منھم مثل النجاشی و اصحابہ (معالم ج 3 ص 66) 144 یہ ماقبل کی علت ہے قِسِّیْسِیْنَ ، قسیس کی جمع ہے جس کے معنی عالم کے ہیں اور یہ لفظ نصاریٰ کے سب سے بڑے عالم پر بولا جاتا ہے۔ فی القاموس ھو رئیس النصاری فی العلم (مظہری ج 3 ص 164) اور رُھْبَان، رَاھِبٌ کی جمع ہے یعنی تارک الدنیا اور عبادت گذار درویش۔ حبشہ کے عیسائیوں میں سے جو اسلام لا چکے ہیں ان میں چونکہ بڑے بڑے علماء اور درویش شامل ہیں اور ان کے دل میں تکبر و غرور نہیں ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے حق کو قبول کرلیا ہے اور یہی ایمان والوں سے ان کی محبت و مودت کی وجہ ہے۔
Top