Siraj-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 173
اَلَّذِیْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِیْمَانًا١ۖۗ وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِیْلُ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو قَالَ : کہا لَھُمُ : ان کے لیے النَّاسُ : لوگ اِنَّ : کہ النَّاسَ : لوگ قَدْ جَمَعُوْا : جمع کیا ہے لَكُمْ : تمہارے لیے فَاخْشَوْھُمْ : پس ان سے ڈرو فَزَادَھُمْ : تو زیادہ ہوا ان کا اِيْمَانًا : ایمان وَّقَالُوْا : اور انہوں نے کہا حَسْبُنَا : ہمارے لیے کافی اللّٰهُ : اللہ وَنِعْمَ : اور کیسا اچھا الْوَكِيْلُ : کارساز
جنہیں لوگوں نے کہا تھا کہ تمہارے لئے لوگوں نے لشکر جمع کیا ہے تو تم ان سے ڈرو ، اس بات نے ان کا ایمان بڑھایا اور انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کارساز ہے ۔ (ف 3)
مجاہدین کا نعرہ مستانہ : (ف 3) بدر صغری کا واقعہ ہے ، ابو سفیان نے جب محسوس کیا کہ حسب وعدہ مسلمان مقام جنگ تک پہنچ جائیں گے تو اس نے نعیم کو بھیجا تاکہ مدینہ میں جا کر مسلمانوں کو مرغوب کرے ، اس نے آکر کہا ، مسلمانو ! تم کیا غضب کر رہے ہو ، ابو سفیان پوری تیاری کے ساتھ آرہا ہے ، مدینہ سے باہر قدم رکھا تو یاد رکھو ایک بھی تم میں سے بچ کر نہیں آسکے گا ، اگر مسلمان مجاہدانہ نکلے اور سالم وفائم واپس مدینہ لوٹے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ فوج کی کثرت ‘ سازوسامان کی چمک دمک مسلمان کے لئے مرعوب کن نہیں ہو سکتی ، اس سے تو اس کے دل میں اور قوت و توانائی پیدا ہوجاتی ہے ، اور وہ (آیت) ” حسبنا اللہ “ کا نعرہ مستانہ لگا کر میدان جنگ میں کود پڑتا ہے ۔ حل لغات : استجابوا : قبول کیا ، مان لیا ۔ لبیک کہا الفرح : زخم ، حسبنا : ہمیں بس ہے ۔ ہمارے لئے کافی ہے ۔ سوء : تکلیف ۔
Top