Siraj-ul-Bayan - Faatir : 31
وَ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِعِبَادِهٖ لَخَبِیْرٌۢ بَصِیْرٌ
وَالَّذِيْٓ : اور وہ جو اَوْحَيْنَآ : ہم نے وحی بھیجی ہے اِلَيْكَ : تمہاری طرف مِنَ الْكِتٰبِ : کتاب هُوَ : وہ الْحَقُّ : حق مُصَدِّقًا : تصدیق کرنے والی لِّمَا : اس کی جو بَيْنَ يَدَيْهِ ۭ : ان کے پاس اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ بِعِبَادِهٖ : اپنے بندوں سے لَخَبِيْرٌۢ : البتہ باخبر بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
اور جو کتاب ہم نے تیری طرف نازل کی ہے ۔ وہی حق ہے جو اس سے پہلے ہے اس کی تصدیق (ف 1) کرتی ہے ۔ بیشک اللہ اپنے بندوں سے خبردار ہے (اور) انہیں دیکھ رہا ہے
قرآن کا احسان کتب مقدسہ پر 1: قرآن حکیم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ مصدق ہے یعنی پہلی تمام کتابوں کو صداقتیں ہیں ۔ ان کی یہ تصدیق کرتا ہے ۔ قرآن کا نزول سے کتب قدیمہ کی یہ حیثیت تھی ۔ کہ ان میں کافی تحریف ہوچکی تھی ۔ اور یہ اتنی بدل چکی تھیں ۔ کہ پابہ اعتبار سے ساتھ ہوگئی تھیں ۔ یہ قرآن کا ان کتابوں پر بہت بڑا احسان ہے ۔ کہ اس نے دوبارہ ان کی تصدیق کی ۔ اور اس روح ومصنویت کی تائید فرمائی ۔ جو باوجود ترمیم واصلاح کے اب تک ان کتابوں میں موجود تھی ۔ اس میں شک نہیں ۔ کہ اگر قرآن مجید نازل نہ ہوتا ۔ تو ابراہیم موسیٰ اور مسیح (علیہم السلام) کو اور ان کی تعلیمات کو کوئی شخص یقین کے ساتھ نہ جان سکتا ۔ قرآن نے ان کو زندگی بخشی ۔ اور پھر سے ان کتابوں کو یہ مرتبہ ومقام بخشا ہے ۔ کہ لوگ ان میں حق وصداقت کو تلاش کریں ۔ تصدیق کے معنے عربی میں یہ بھی ہوتے ہیں ۔ کہ کتب قدیمہ میں جو پیشگوئیاں تھیں ۔ ان کو قرآن سچا کرکے دکھاتا ہے ۔ یعنی اس کے وجود میں اس کی تعلیمات میں اور اس کے پیغام میں تمام پہلی توقعات پوری ہوجاتی ہیں ۔ تصدیق کے ان معنوں کی تصدیق عربی نعت ومحاورات سے بھی ہوتی ہے جیسے ۔ ع فواریں صدقت فیھم ظنونی یعنی یہ وہ شہسوار ہیں جن میں میری تمام امیدیں برآتی ہیں ۔
Top